کتاب: البیان اسلامی ثقافت نمبر - صفحہ 85
ان واقعات سے معلوم ہوا کہ ولیمے میں نہ زیادہ ہجوم جمع کرنے کی ضرورت ہے اور نہ پر تکلف انواع واقسام کے کھانوں اور ڈشوں کی۔ تھوڑے سے افراد کو بلایا جائے اور گھر ہی میں ان کی خاطر تواضع کر دی جائے اس طرح شادی ہال وغیرہ بک کروانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ اپنی امارت اور شان وشوکت کے اظہار کی بھی ضرورت نہیں ہے ، اللہ نے دنیاوی وسائل سے نوازا ہے تو اسے ان ضرورتوں پر خرچ کیا جائے جن کی معاشرے میں ضرورت ہے ، اللہ کے دین کی نشر واشاعت اور اللہ کے دین کے داعیوں اور محافظوں پر خرچ کیا جائے ، جہاد اور مجاہدین پر خرچ کیا جائے ، وعلی ہذا القیاس۔ ولیمے وغیرہ کی دعوتوں میں اسراف وتبذیر کا مظاہرہ کرکے کم وسائل والے افراد کے اندر احساس محرومی پیدا نہ کیا جائے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر سے واپسی پر راستے میں جو ولیمہ کیا تھا ، وہ مسلمانوں کے باہمی تعاون سے ہوا تھا ، جیسا کہ اس کی تفصیل گزری۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس معاملے میں اصحاب ثروت لوگوں کو بے وسیلہ لوگوں کے ساتھ محض رضائے الٰہی کی خاطر تعاون کرنا چاہیے، ان کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا عند اللہ ناپسندیدہ روش ہے۔ (3) ولیمہ گوشت کے بغیر دو سری چیزوں سے بھی کیا جاسکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا ولیمے میں ہوا۔ (4) ولیمے میں محض رشتے داریوں اور دوستانہ تعلقات کی بنیاد ہی پر نہ بلایا جائے بلکہ نیک لوگوں کو بھی شریک کیا جائے ، اسی طرح غرباء ومساکین کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے ، جس ولیمے میں محض اغنیاء ہی شریک ہوں ، اسے نبی نے "شر الطعام"(بدترین کھانا) قرار دیا ہے ، صحیح بخاری میں موقوفاً سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ کہا کرتے تھے۔ "شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الوَلِيمَةِ، يُدْعَى لَهَا الأَغْنِيَاءُ وَيُتْرَكُ الفُقَرَاء" [1]
[1] صحیح البخاری: کتاب النکاح ، باب من ترك الدعوةفقد عصى الله