کتاب: البیان اسلامی ثقافت نمبر - صفحہ 71
مذکورہ میں اس سے مراد چھوٹی بچی کا دف بجا نااور قومی گانا گا کراظہارِ مسرت کرنا ہے۔
محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"فَصْلُ مَا بَیْنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ الدُّفُّ وَالصَّوْتُ فِي النِّکَاح"[1]
حرام اور حلال کے درمیان فرق کرنے والی چیز دف بجانا اور نکاح میں آواز بلند کرنا ہے۔
ایک اور واقعہ احادیث میں بیان ہوا ہے، عامر بن سعدرحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک شادی میں گیا، وہاں دو صحابی ٔرسول جناب قرظہ بن کعب اور ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہاں چھوٹی بچیاں گانا گا رہی ہیں۔ میں نے دونوں صحابیوں سے کہا: تم دونوں اصحابِ رسول اور اہل بدر (جنگ بدر کے شرکا) میں سے ہو، تمہاری موجودگی میں یہ کیا ہو رہا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا:
شادی کے موقعے پر ہمیں "لَھْو‘‘(چھوٹی بچیوں کے قومی گیت وغیرہ گا کر اظہار مسرت کرنے) کی رخصت دی گئی ہے، تمہارا جی چاہتا ہے تو سنو، جانا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی ہے۔[2]
مذکورہ روایات سے کیا ثابت ہوتا ہے؟
ان احادیث سے دو باتوں کا اثبات ہوتا ہے۔ ایک دف بجانے کا اور دوسرے، ایسے گیتوں اور شعروں کے گانے اور پڑھنے کا جن میں خاندانی شرف و نجابت کا اور آباء و اجداد کے قومی مفاخر کا تذکرہ ہو، لیکن ساری متعلقہ صحیح احادیث سے ان دونوں باتوں کی جو نوعیت معلوم ہوتی ہے، اس کا خلاصہ حسب ِذیل ہے:
خاص موقعوں پر دف بجایا جا سکتااور قومی گیت گایا جا سکتا ہے، جیسے شادی بیاہ کے موقعے پر یا عید وغیرہ پر، جس کا مقصد نکاح کا اعلان کرنا اور خوشی کا اظہار کرنا ہے، تاکہ شادی خفیہ نہ رہے۔ اسی لیے یہ حکم بھی دیا گیا ہے:
"اَعْلِنُوْا النِّکَاحَ‘‘[3]’’نکاح کا اعلان کرو۔‘‘
[1] سنن النسائی ، کتاب النکاح ، باب اعلان النکاح بالصوت .....،
[2] سنن النسائی ، کتاب النکاح ، باب اللھو والغناء عند العرس ،
[3] صحیح ابن حبان ، حدیث:1285 ۔ آداب الزفاف ، ص:97