کتاب: البیان اسلامی ثقافت نمبر - صفحہ 450
مگر افسوس کہ آج ہمارے پاکستانی معاشرے میں مہاجر، پنجابی ، پختون ، بلوچی ، سندھی ، سرائیکی کے نعرے بھی لگے اسکی بنیاد پر لسانی جھگڑے ہوئے نفرتیںپیدا ہوئیں اور خونریزی ہوئی۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ یہ سبھی ایک معبود کے ماننے والے ایک ہی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے والے ایک ہی پیغمبر کے پیروکار اور ایک ہی قرآن کی تلاوت کرنے والے ہیں ۔ مگر کیونکہ انھوں نے لسانی عصبیت ، صوبائی و علاقائی عصبیت کو دل و جان سے تسلیم کیا تو خونریزی کے اژدھے نے انھیں دبوج لیا۔ یہ وہی کام تھا جس کی نفی اور ممانعت محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمائی تھی اسی عصبیت نے جب عالمی صورتحال اختیار کی اور عربی اور عجمی حکمرانی کے مسئلے نے سر اٹھایا تو عالم اسلام کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا۔ جن کا غیر مسلم دنیا نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پھر بھی نہیں سمجھو گے تم مٹ جاؤ گے۔۔۔۔۔ تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں یہ بات بھی یاد رہے کہ اسلامی ثقافت کا دائرہ کار مسلمان کی پیدائش سے موت تک پھیلا ہوا ہے اس میں اسکی خوشی ، غمی کے طور طریقے،معاشی معاملات ،شادی بیاہ کے مسائل اورعدالتی قضیے بھی ہیں سیاسی حالات بھی ہیں سب کچھ ہے۔ مسلمانوں نے اپنے سیاسی نظام کو خلافت و شورائیت سے بدل کر جمہوریت و آمریت سے بدل لیااسلامی عدالت کے بدلے غیر مسلم عدالت کا سہارا لے لیا معیشت میں سُود جیسے دیگر خطرناک معاملات وقوانین و نظام کو اختیار کر لیا شادی بیاہ کے مسئلے میں غیر مسلم قوموں کے نقشِ قدم پر چل پڑے جس کا نتیجہ ہم اخلاقی تباہی ، معاشی بربادی ، مایوسی ، ظلم وستم کے طوفان اور منشیات کی طرف نسلِ نوع کےمیلان اور رجحان کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ہونے کی کچھ وجوہات ہیں ، مثلاً (1) اسلامی تہذیب سے غفلت و لاپرواہی و بے توجہی