کتاب: البیان اسلامی ثقافت نمبر - صفحہ 445
آسمانوں پر کمندیں ڈالنا ان کی سوچ میں نہ تھا اس لئے کہ ان کی سوچ ترقی پسند نہ تھی جبکہ اس دور میں قیصر و کسری روم اور ایران کی بڑی منظم حکومتیں موجود تھیں ۔ وہ ترقی پسند سوچ اس لئے بھی نہیں رکھتے تھے کہ ان کے اباؤاجداد نےبھی کبھی ایسا سوچانہ تھا کہ جس مورتی کو ہم بنا رہے ہیں اور پھر اس کے آگےمنتیں مانگتے ہیں یہ تو خود اپنے وجود کے محتاج ہیں یہ اتنی کمزور ہیں کہ اس کو اگر کوئی توڑناچاہےتو اپنے آپ کو بچانے پر قادر نہیں ہیں لھٰذا ہم یہ کیا کر رہے ہیں ؟ ہمیں یہ نہیں کرنا چاہئیے ۔ بدکاری کی باتیں اپنی مجلسوں میں فخر سے کرتے وہ اس حد تک وحشی تھے کہ کھڑے جانور کا گوشت کاٹ لیتے اور پکا کر کھا جاتے اور تڑپتے جانور کو چھوڑ دیتے ، لوٹ مار ان کا پیشہ بنا ہوا تھا ۔ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا ان کے ہاں کوئی بری بات نہ تھی۔ یعنی عرب قوم برائیوں کی ساری حدود پھلا نگ چکی تھی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی قوم کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بنایا سنوارا ان کو مہذّب بنایا ان کے مجمعوں میں گئے ان کو اللہ تعالیٰ کا تعارف کرایا ان کے دل کی دنیا جگانے کی انتھک کوشش کی مگر وہ حق قبول کرنے میں ایسے تھے جیسے پتھر ہوں آپ کی بات کو سننے کے بجائے آپ سے لڑتے جھگڑتے گڑے کھودتے آپ کو دیوانہ کہتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کچھ برداشت کیا آپ ان کی زندگی بدلنے کے لئے مگن رہے ان کے عقائد بدلنے کی کوشش کرتے رہے ان کو مل جل کر رہنے کی تلقین کرتے رہے، انہیں جانوروں پر رحم کرنے کا درس دیتے رہے بیٹیوں سے محبت کرنے کی تلقین کرتے رہے ،یہ کرتے کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو 13 سال کا عرصہ بیت گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اجڈ گنوار قوم کومہذّب بنانے میں اپنی ساری صلاحیتیں ، تمام تر کوششیں بروئے کار لائیںاوراپنا آرام سکون بھی داؤ پر لگا دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پتھروں سے ہیرے تراشے لعل ویاقوت بنائے میں اسی بنیاد پر کہتا ہوں کہ کائنات کا سب سے ترقی یافتہ نفع مند روشن خیال اور قیمتی ترین علم ،علم نبوت ہے علم الوحی ہےجس نے اس کی حفاظت نہ کی وہ قوم قبائل اور ملکوں کے ملک موت کے راستے پر چل پڑے اور اگر اس آسمانی علم کو خود جلایا اس کی توہین اور تذلیل کی یا اس میں ردّ بدل کرنے کی کوشش