کتاب: البیان اسلامی ثقافت نمبر - صفحہ 402
رکھتے ہوئے دہرا حصہ دیا تھا ۔[1] اپنی زندگی کے آخری ایام میں جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستر مرض پر تھے اور آپ کو رومیوں کی جنگی تیاریوں کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک لشکر تیار کروایا اور اس لشکر کی قیادت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائی۔ اسامہ رضی اللہ عنہ اس وقت صرف اٹھارہ سال کے جوان تھے۔[2] ان کی ایک امارت کا تذکرہ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بھی کیا ہے۔ [3] ابوجہل کو قتل کرنے والے بھی نوجوان تھے۔صحیح بخاری میں ان کا تذکرہ موجود ہےکہ انہوں نے کس انداز میںاللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے سب سے بڑے دشمن ابوجہل کو قتل کیا۔ جوانوں کی صلاحیت کے مطابق ان سے کام لیا جائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جوانوں سے ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام لیا اس کی کئی ایک مثالیں دی جاسکتی ہیں، جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔ ابو محذورۃ رضی اللہ عنہ حنین کے قریب یہ دس نوجوان لڑکے(بعض میں بیس کا ذکر ہے۔[4] جارہے تھے کہ انہوں نے اذان کی آواز سنی اور ابومحذورہ رضی اللہ عنہ نے اس اذان کو سنتے ہی اس کی نقل کرنا شروع کردی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آواز کو سنا تو ان لڑکوں کو بلوالیا ،(اس وقت یہ مسلمان نہیں تھے۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک کرکے سب سے اذان سنی لیکن وہ پیاری آواز جو سنی تھی کسی کی نہ تھی۔ بالآخر ابومحذورۃ رضی اللہ عنہ کی باری آئی،ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان سنی تو یہ وہی آواز تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنی تھی اور بہت خوبصورت آواز تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کواذان سکھائی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کو اس وقت تحفہ بھی دیا اور برکت کی دعائیں بھی
[1] صحیح مسلم : 1807،کتاب الجہاد والسیر، باب غزوۃ ذی قرد و غیرھا [2] اسد الغابۃ [3] صحیح بخاری : 4270،کتاب المغازی،باب بعث النبي صلی اللہ علیہ وسلم أسامة بن زيد إلى الحرقات من جهينة [4] صحیح بخاری : 4270،کتاب المغازی،باب بعث النبي صلی اللہ علیہ وسلم أسامة بن زيد إلى الحرقات من جهينة