کتاب: البیان اسلامی ثقافت نمبر - صفحہ 389
صحابہ کرام کے ساتھ شہسواری کے مقابلوں میں پہلا درجہ حاصل کیا (فتح الباری)جیسا کہ مختلف سیرت نگاروں اور مورخین نے ان کا ذکر کیا ہے جیسا کہ بلاذری نے بہت تفصیل سے ایسے مقابلوں کا ذکر کیا ہے دوڑ: صحت اور توانائی کے مطابق ہلکی یا تیز دوڑ بہترین جسمانی ورزش ہے۔ اس کی افادیت پر سارے علماءکرام اور ڈاکٹر متفق ہیں۔ دوڑنے کی اسی افادیت کی وجہ سے صحابہ کرام عام طور پر دوڑ لگایا کرتے تھے اور ان میں آپس میں پیدل دوڑ کا مقابلہ بھی ہوا کرتا تھا۔ بلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام کو دیکھا ہے کہ وہ نشانوں کے درمیان دوڑتے تھے اور بعض بعض سے دل لگی کرتے تھے، ہنستے تھے، ہاں! جب رات آتی، تو عبادت میں مشغول ہوجاتے تھے۔[1] بیوی کے ساتھ بے تکلّفانہ کھیل: مرد کا اپنی بیوی کے ساتھ بے تکلفی کا کھیل بھی اسلام کی نظر میں مستحسن ہے۔ ممکن ہے بعض کو گراں گزرے کہ اس سے عورت سر پہ چڑھ جائے گی مگرعائشہ صدیقہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ کے ساتھ تھی۔ میں نے آپ سے دوڑ لگائی اور آگے نکل گئی۔ کچھ عرصہ بعد پھر ایک سفر میں، میں نے رسول اللہ سے دوڑلگائی اب میرے جسم پر گوشت چڑھ گیا تھا تو آپ مجھ سے آگے نکل گئے اور آپ نے فرمایا یہ اس کے بدلہ میں ہے۔[2]مذکورہ حدیث نبوی سے بیوی کے ساتھ تفریح کرنے اور دوڑ لگانے دونوں کی افادیت سمجھ میں آتی ہے، لیکن واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ واقعات اس وقت کے ہیں،جب کہ قافلہ آپ کے حکم سے آگے جاچکا تھا اور وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کوئی نہ تھا، وہ تنہا تھے۔ کسی اور کی موجودگی میں ایسا نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ یہ حیا کے خلاف ہے۔ بچوں کے کھیل: بچوں میں چونکہ کھیل کی طرف رغبت فطری طور پر پائی جاتی ہے لہٰذا عہد رسالت کے بچے بھی اس سے محروم نہ تھے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں ان جائز
[1] مشکوٰة: 407 [2] سنن ابی داؤد