کتاب: البیان اسلامی ثقافت نمبر - صفحہ 388
بھی تیر چلاؤ اور میں تم سب کے ساتھ ہوں۔[1] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تیر اندازی کو عرب بطور ایک تفریحی مشغلہ اور کھیل کے طور پر بھی اختیار کیا کرتے تھے بلکہ بعد میں یہی تفریحی کھیل ان کی فوجی تربیت میں بدل جاتا تھا کہ سابقہ زمانے کی جنگوں میں تیر اندازی ایک بہت اہم ہتھیار تھا لہٰذا اس جنگی مہارت کا حاصل کرنا عمومی طور پر ایک فن حرب کی حیثیت سے معروف تھا۔ سواری : اس سے جسم کی پوری ورزش کے ساتھ انسان میں مہارت، ہمت وجرات اور بلند حوصلہ جیسی اعلیٰ صفات پیدا ہوتی ہیں اور سفریا جہاد میں خوب کام آتا ہے۔ گو کہ قرآن وحدیث میں عام طور پر گھوڑے کاذکر آیا ہے مگر اس سے ہر وہ سواری مراد ہے جواس مقصد کو پورا کر سکے مثلاً ہوائی جہاز،ہیلی کاپٹر، بس، موٹر سائیکل، سائیکل وغیرہ۔ ان سب سواریوں کے چلانے کی مشق اور ٹریننگ اسلامی نقطۂ نظر سے پسندیدہ ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ جائز اور نیک مقاصد کے لیے انھیں سیکھا جائے اور استعمال کیاجائے۔ عربوں کی زندگی میں جن چند عناصر کو مرکزیت حاصل تھی ان میں ایک گھڑسواری تھی مردوں کی مردانگی کا تو یہ ایک معیار تھا ہی خواتین بھی اس میں مہارت حاصل کرتی تھی قرن اول کی بے شمار جنگوں میں خواتین کی شہسواری ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔ بلکہ کسی شخص کے لیے یہ امر باعث ندامت و شرمندگی ہوتا تھا کہ وہ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھنا نہ جانتا ہو بلکہ اسے بزدل کہا جاتا تھا اور بعض احادیث میں یہ دلچسپ درخواست بھی بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کی طرف سے خدمت رسالت میں پیش کی گئی کہ وہ گھوڑے کی پیٹھ پر جم کر نہیں بیٹھ سکتے لہٰذا ان کی یہ کمزوری دور ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے یہ دعا کی اور کئی کمزور پشت حضرات کو صلابت حاصل ہوئی ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہسواری معروف تھی اور اس مقصد کے لیے آپ کے پاس کئی اونٹ اور گھوڑے تھے بلکہ حالت امن میں آپ نے کئی مرتبہ
[1] صحیح بخاري :كتاب الجهاد و السير،باب التحريض علي الرمي