کتاب: البیان اسلامی ثقافت نمبر - صفحہ 387
حکم دیاگیاہے: {وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ} [الأنفال: 60] ترجمہ:اے مسلمانو! تمہارے بس میں جتنی قوت ہو، اسے کافروں کے لیے تیار کرکے رکھو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ”قوة“ کی تفسیر رمی (تیراندازی) سے کی ہے۔ آپ نے تین مرتبہ فرمایا: ’’ ألاَ أَنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ‘‘ [1]یعنی خبردار ”قوة“ پھینکنا ہے۔ اس پھینکنے میں جس طرح تیر کا پھینکنا داخل ہے، اسی طرح اس میں کسی بھی ہتھیار کے ذریعہ مطلوبہ چیز کو نشانہ بنانا، راکٹ، میزائل وغیرہ کوٹھیک نشانہ تک پہنچانا بھی داخل ہے اور ان میں سے ہر ایک کی مشق جہاں جسمانی لحاظ سے بہترین ورزش ہے، وہیں باعث اجر وثواب بھی ہے۔[2] ایک حدیث میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ بے شک ایک تیر کے ذریعہ اللہ تعالیٰ تین افراد کو جنت میں داخل کردیتا ہے۔ ایک تیر بنانے والا،جبکہ وہ تیر بنانے میں ثواب کی نیت رکھے۔ دوسرا تیر پھینکنے والا اور تیسرا پکڑنے والا، پس اے لوگو! تیر اندازی سیکھو‘‘ ۔[3] بلکہ تیر اندازی تو ایک ایسا فن تھا جس کی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچپن میں اس کی مشق کی تھی اور یہ عرب میں بطور مشغلہ بھی تھا لیکن اس میں ایک بات بہت اہم ہے کہ تیر اندازی جائز اور مباح ہے لیکن پرندوں اور جانورں پر مشق کرنا اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعی طور پر منع کیاہے ۔ اس میں ایک دلچسپ واقعہ جو کہ صحیح بخاری میں مذکور ہے سید نا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر قبیلہ بنو اسلم کے کچھ افراد پر ہوا تو ان کو تیر اندازی کرتے ہوئے پایاآپ نے ان کو بنو اسماعیل قرار دے کر فرمایا کہ تمہارے جد امجد بھی تیر اندازتھے لہٰذا تم تیر اندازی کرتے رہو اور میں بھی بنو فلاں کے ساتھ ہوں دوسرے فریق نے تیر چلانے سے ہاتھ روک لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کو کیا ہو گیا ہے تم تیر کیوں نہیں چلاتے انہوں نے عرض کیا کہ ہم تیر کیسے چلائیں کہ آپ تو ان کے ساتھ ہیں تو آپ نے فرمایا کہ تم
[1] مسلم:كتاب الإمارة ، باب فضل الرمي [2] بذل المجهود:11/428 [3] سنن أبو داؤد: كتاب الجهاد، باب في الرمي