کتاب: البیان اسلامی ثقافت نمبر - صفحہ 385
درجہ دے کر نونہالوں کے مستقبل سے کھلواڑ کیاجاتا ہے۔ (9) سٹے بازی، جوے بازی، میچ فکسنگ اور اسپاٹ فکسنگ کا سیلاب بلاخیز آیا ہوا ہے لہٰذا مذکورہ خرابیوں کی وجہ سے ان کھیلوں کے عدمِ جواز کا حکم لگایا جاتا ہے۔ ی) تعلیم وتذکیر کے لیے فلموں کا استعمال: فلم درحقیقت عکس بندی کا نام ہے۔ یہ عکس بندی جاندارچیزوں کی بھی ہوتی ہے اور بے جان چیزوں کی بھی۔ کسی بھی جاندار کی تصویر کھینچنا اور کھینچوانا کسی حال میں بھی درست نہیں ہے۔ خواہ ہاتھ کے ذریعہ ہو، یا قلم سے یا کیمرہ کے ذریعہ ہو یا پریس پر چھاپ کر۔ یا سانچہ اورمشین میں ڈھال کر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’اَشَدُّ النَّاسِ عَذَاباً یَومَ القِیَامَةِ الْمُصَوِّرُوْن‘‘ ۔[1]’’ قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا‘‘۔ اس کے علاوہ اور بھی متعدد صحیح احادیث ہیں،جن میں تصویر سازی کی مذمت کی گئی ہے۔ ویڈیو اور کیمرہ کی تصویر بھی درحقیقت تصویر ہی ہے۔ اس سلسلہ میں بعض غیرمحتاط علماء کے ضعیف اقوال کو وجہ جواز نہیں بنایا جاسکتا، لہٰذا جان دار چیزوں کی فلم بندی کسی حال میں درست نہیں ہے، ضرورت کے مواقع مستثنیٰ ہیں۔ تعلیمی مقاصد وتذکیری مقاصد ضرورت میں شامل نہیں۔جیسا کہ موجودہ دور میں کارٹون میں بچوں کی رغبت بہت زیادہ پائی جاتی ہے اور کارٹونز بچوں کی نفسیات اور ان کے مزاج پر انتہائی خطرناک اثرات مرتب کرتے ہیں اور بنیادی طور پر ان کا شمار بھی فلموں میں کیا جا سکتا ہے گو کہ بعض فقہاء نے نابالغ بچوں کے لیے باتصویر کھلونوں سے کھیلنے کو درست قرار دیا ہے لیکن اس سے کہیں بھی کارٹونز کے جواز پر کوئی دلیل نہیں ملتی ۔ ک) اسٹیج ڈرامہ: موجودہ زمانے میں جو ”اسٹیج شو“ کے نام سے ڈرامے مروّج ہیں، وہ مفاسد سے پُرہوتے ہیں۔ اس لیے ممنوع ہیں۔ البتہ مدارس میں منعقد ہونے والے مکالمے، محادثے بالعموم اصلاحی تذکیری ہوتے ہیں اور مذکورہ مفاسد سے پاک ہوتے ہیں،اس لیے ان کی گنجائش ہے۔ تمام تفریحات اور کھیل کود میں اصل یہ ہے کہ انسان کسی حال میں اپنے مقصدِ حیات اور فکر آخرت سے غافل نہ ہو۔
[1] بخاري : كتاب اللباس, باب عذاب المصورين يوم القيامة