کتاب: البیان اسلامی ثقافت نمبر - صفحہ 381
ہم آہنگ اور فطری مقاصد کو بروئے کار لانے والا مذہب ہے۔
1۔ اصولی ہدایت: اسلام انسان کو ایک بامقصد زندگی گزارنے کی ہدایت دیتا ہے اور کھیل وکود اور لہوولعب پرمشتمل زندگی کی مذمت کرتا ہے۔ بامقصد زندگی جس کی اساس ہمہ وقت اللہ کی خوشنودی کی جستجو، تعمیر آخرت کی فکر مندی اور لہوولعب سے اِعراض ہووہ زندگی اہل ایمان کی پہچان ہے اور جس کی بنیاد لہوولعب پر مشتمل غفلت و بے پرواہی ہو وہ کفار کا شعار ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: [وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ ][المومنون:3]کہ اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ وہ لغو اور فضول باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔ لہٰذا شرعی نقطہ نظر سے ہر وہ کام، قابلِ تعریف ہے، جو انسان کو مقصدِ اصلی پر گامزن رکھے۔ ہر اس کام کی اجازت ہے، جس میں دنیا وآخرت کا یقینی فائدہ ہو۔ یا کم از کم دنیا وآخرت کا خسارہ نہ ہو۔ کھیلوں میں سے بھی صرف انہی اقسام کی اجازت ہے، جو جسمانی یا روحانی فوائد کےحامل ہوں۔ وہ کھیل جو محض ضیاعِ اوقات کا ذریعہ ہوں، فکر آخرت سے غافل کرنے والے ہوںوہ کھیل جو دوسروں کے ساتھ دھوکہ فریب یا ضررسانی پر مبنی ہوں، ان کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ کُلُّ مَا یَلهوابه الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ الَّا رَمْیَةٌ بِقَوْسه وَتَأدِیْببه فَرَسه وَمُلاَعَبَته اِمْرَأته فَانّهن مِنَ الْحَقِّ‘‘[1]
یعنی مرد مومن کا ہر کھیل بیکار ہے سوائے تین چیزوں کے: (۱) تیر اندازی کرنا، (۲) گھوڑے سدھانا (۳) اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا، کیوں کہ یہ تینوں کھیل حق ہیں۔
2۔ لباس وپوشاک سے متعلق: لباس اور پوشاک کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ کھلاڑی کھیل کے دوران ایسا لباس پہنے، جو ساتر ہو یعنی جسم کا وہ حصہ چھپ جائے، جن کا چھپانا واجب ہے، یعنی مرد کے لیے ناف سے لے کر گھٹنے تک اور عورت کے لیے پورا جسم ستر میں داخل ہے، ان کا ڈھکا ہوا ہونا واجب ہے۔ لباس اتنا باریک اور چست بھی نہ ہو کہ جسم کے اعضا نمایاں ہوں۔ اسی طرح
[1] سنن الدارمي:كتاب الجهاد، باب في فضل الرمي