کتاب: البیان اسلامی ثقافت نمبر - صفحہ 380
(7) بیوقوف اور کم عقل افراد سے مذاق کرنے سے اجتناب کیا جائے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :’’ مذاق میں میانہ روی اختیار کرو، اس میں افراط سے کام لینے سےہیئت جاتی رہتی ہے اور بے وقوف لوگوں کوآپ کے خلاف جرأت ہوجاتی ہے ‘‘ ۔ 8 مذاق میں کسی مسلمان بھائی کی غیبت اور چغل خوری نہیں ہونی چاہئے مسلمان بھائی کی غیبت کرنا اس کے مردہ گوشت کھانے کے مترادف ہے ۔ غیبت اور چغل خوری کا نتیجہ فتنہ ہے۔ عصر حاضر میں مزاح کی غالب صورتیں اس قبیح اور ناپاک جرم سے خالی نہیں ،اور غیبت کی شرعی اصطلاح میں یہ تعریف بیان کی گئی ہے کہ’’ذكرك أخاك بما يكره‘‘[1]اپنے مسلمان بھائی کا اس انداز میں تذکرہ کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہو ۔ لہٰذا غیبت اور چغل خوری ایک بہت بڑا اخلاقی جرم ہے مزاح کرنے میں اس سے پرہیز کیا جائے۔ تفریحی کھیل شرعی نقطہ نظر سے اسلام کے تصور تفریح کا مقصد صرف وقت گزاری نہیں ہے بلکہ اس نے عملی، تربیتی عسکری اور جسمانی ورزش کے مقاصد بھی مد نظر رکھے ہیں۔ تفریح کے نام پر جھوٹ، تہمت، مبالغہ آمیزی اور دوسروں کی نقل اتارنے کی اجازت نہیں دی ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی کہ اسلام نے ان مجلسوں میں شرکت کرنے سے روک دیاجس میں انسان اس قدر منہمک ہوجائے کہ اسے نماز ودیگر فرائض کا پاس وخیال نہ رہے یامردوزن کا بے محابا اختلاط ہو۔ اسی لیے اسلام نے تفریح اور کھیل میں سے صرف انہی چیزوں کی اجازت دی ہے جو جسمانی یا روحانی فوائد کے حامل ہوں اورجو محض ضیاعِ اوقات کا ذریعہ ہوں، فکر آخرت سے غافل کرنے والے ہوں یا دوسروں کے ساتھ دھوکہ فریب یا ضررسانی پر مبنی ہوں،ان کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلامی نظام کوئی خشک نظام نہیں جس میں تفریحِ طبع اور زندہ دلی کی کوئی گنجائش نہ ہو، بلکہ وہ فطرتِ انسانی سے
[1] رواه مسلم : كتاب البر و الصلة و الآداب , باب تحريم الغيبة