کتاب: البیان اسلامی ثقافت نمبر - صفحہ 378
اس کے علاوہ قہقہہ لگانا یہاں تک کہ کھل کھلاکر ہنسنا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (جو بالیقین ایمان والوں کے لیے ہر عمل میں بہترین اسوہ ہیں) سے ثابت نہیں،بلکہ آپ خوشی کے مواقع پر صرف زیر لب مسکرایا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طور پر کھل کھلاکر ہنستے ہوئے کہ آپ کے دہن مبارک کا اندرونی حصہ نظر آجائے، کبھی نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف تبسم فرمایا کرتے تھے ‘‘۔ معلوم ہوا کہ اگر سلسلہٴ کلام میں کوئی تعجب خیز، حیرت انگیز یا مضحکہ خیز بات زیر تذکرہ آجائے؛ تو ان پر ہنسنے اور مسکرانے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ ایسے مواقع پر ہنسنا اور مسکرانا چاہیے،تاکہ دل کا بوجھ ہلکا اور غبار کم ہو اور موجودہ زمانے کی تحقیق کے مطابق صحت، مستعدی اور نشاط میں اضافہ ہو، لیکن شرط یہ ہے کہ یہ ہنسنا اور مسکرانا غافلین کا سا نہ ہو،اس لیے کہ اس طرح کا ہنسنا دلوں کو مردہ کردیتا ہے۔ قتادہ رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم بھی ہنسا کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں! بیشک! وہ ہنسنے کے موقع پر ہنستے بھی تھے، لیکن اس وقت بھی ان کے قلوب میں ایمان پہاڑ سے زیادہ عظیم ہوتا تھا۔ لہٰذا موجودہ دور کے ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق عمل کرتے ہوئے بہ تکلف قہقہے لگانے کی مجلس منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے بلکہ بے تکلف فطری انداز میں جس قدر انسان ہنس لے، وہی اس کی صحت وتندرستی کے لیے کافی ہے۔ اس لیے کہ زیادہ ہنسنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق صحت وتندرستی کا سبب نہیں بلکہ دلوں کے مردہ ہونے کا سبب ہے۔ اگر مزاح کے پہلوؤں کی حامل، مفید امور پر مشتمل کوئی کہانی ہو، تو اسے افادیاتی نقطۂ نظر سے انگیز کیا جاسکتا ہے۔ ایک باررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنھاکو عرب کی تیرہ عورتوں اور ان کے شوہروں کا قصہ سنایا جو’’حدیثِ امّ ِذرع‘‘ کے نام سے حدیث کی کتابوں میں مذکور ہے۔ لطیفہ گوئی اور مزاح کو ذریعہٴ معاش بنانا: کبھی کبھار لطیفہ کہہ دینے یا مزاح اور تفریح کرلینے کی تو گنجائش ہے، لیکن مستقل لطیفہ گوئی کرنا اور اس کو ذریعہٴ معاش بنالینا، یہ اس مقصد حیات کے برخلاف ہے، جو اسلام افراد اورمعاشرے میں پیدا کرنا چاہتا ہے اور مستقل لطیفہ گوئی اور مزاح وتفریح میں مشغول رہنا انسان کو فکرِآخرت، ذکر اللہ، عبادت اور تلاوت قرآن سے غافل کردیتا ہے۔ زیادہ ہنسنے