کتاب: البیان اسلامی ثقافت نمبر - صفحہ 377
بنیادی ضابطہ یہ ہے کہ وہ وقتی اور محض کچھ دیر کی خوش طبعی کیلئے ہونا چاہئے نہ کہ اسے پیشہ بنایا جائے ۔ مومنین کی صفات سنجیدگی ہے ، ہنسی مذاق محض بطور رخصت کے اجازت دی گئی ہے بعض لوگ سنجیدگی اور کھیل کے وقت میں فرق نہیں کرتے ۔ امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ لوگوں کی ایک بہت بڑی غلطی اور جرم یہ ہے انہوں نے مذاق کو پیشہ بنا لیا ہے ‘‘[1] اتفاقیہ طور پر حسبِ موقع مزاحیہ گفتگو کرلینا اور تفریحی اشعار کہہ سن لینا اگرچہ جائز ہے؛ لیکن اس کے لیے اہتمام سے اجتماع کرنا اوراس میں گھنٹوں لگانا کسی طرح بھی درست نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکه مَا لاَیَعْنيه‘‘[2] یعنی آدمی کے اچھے اسلام کی علامت یہ ہے کہ وہ ان امور کو ترک کردے جن سے انہیں سروکار نہیں ۔ مستقل طور پر مزاح میں لگے رہنا ممنوع ہے، اس لیے کہ وہ زیادہ ہنسنے کا سبب، قلب کے بگاڑ کا ذریعہ اور ذکر اللہ سے اعراض کا موجب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار ہی مزاح فرماتے تھے، وہ بھی کسی خاص مصلحت کے لیے یا مخاطب کو مانوس کرنے کے لیے ۔ ہنسی کے مواقع پر ہنسنا اور مسکرانا بھی انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور بلا موقع اور محل تکلف سے ہنسنا اور قہقہہ لگانا فطرت کے خلاف عمل ہے۔ موجودہ دور میں ڈاکٹروں کی رائے میں اگرچہ ہنسنا انسانی صحت کی برقراری اور اس کو چست ونشیط رکھنے کے لیے معاون فعل ہے، اس کے لیے خاص طور پر ہنسنے کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں، جن میں لوگ تکلف قہقہہ لگاتے ہیں اور دیر تک ہنسنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یہ عمل شرعی لحاظ سے مناسب نہیں، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ لاَتُکْثِرِ الضِّحْکَ فَانَّ کَثْرَةَ الضِّحْکِ تُمِیْتُ الْقَلْبَ ‘‘[3] کہ تم زیادہ مت ہنسا کرو، اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے۔
[1] احیاء علوم الدین للغزالی 3/ 129 [2] ترمذي: كتاب الزهد باب في من تكلم بكلمة ليضحك الناس [3] ترمذي: كتاب الزهد، باب من اتقى المحارم