کتاب: البیان اسلامی ثقافت نمبر - صفحہ 34
ہوائی فائرنگ، جس کی زد میں آئے دن بعض باراتی یا اڑوس پڑوس کے لوگ آجاتے ہیں اور موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
بھنگڑا اور لڈیاں ڈالنا، اس کا رواج بھی بڑھتا جارہاہے حتی کہ بعض باراتیوں میں یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ خواتین بھی اس میں شریک ہوجاتی ہیں۔
پیسے لٹانا، پہلے تو ریزگاری کی شکل میں تھوڑی سی رقم ہی اس پر خرچ ہوتی تھی ، اب یہ رسم نوٹوں تک پہنچ گئی ہے جس سے اس مد پر بھی ہزاروں روپے برباد کیے جاتے ہیں۔
ہیں جن کا بوجھ اس کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتاہے ،یہ بھی فضول خرچی ہی کی ایک مد ہے۔
یہ بارات جب لڑکی والوں کے ہاں(ہال یا گھر میں) پہنچتی ہے تو نوجوان لڑکیاں اور یکسر بے پردہ عورتیں دونوں طرف ہاتھوں میں پھولوں کے تھال پکڑے ہوئے دولہا اور باراتیوں کا استقبال کرتی ہیں اور ان پر گل پاشی کرتی ہیں، یہ بھی بے پردگی کی ایک ایسی بے ہودہ رسم ہے جس کی توقع کسی مسلمان مرد عورت سے نہیں کی جاسکتی۔
بارات کے ساتھ کرائے کے مووی میکر ہوتے ہیں جو ان ساری خرافات کو بھی اور ہال میں ہونے والے ساری کارروائی کو بھی(نکاح کی تقریب سے لے کر دلہن کی رخصتی تک) فلم بند کرتے ہیں اور ایک ایک سین کو بالخصوص خواتین کے مختلف پوزوں کو اور دلہن کے ایک ایک پوز کو محفوظ کرتے ہیں اور بعد میں دونوں خاندانوں کے گھروں میں بے حیائی کے ان مظاہر کو بڑی دلچسپی سے دیکھا جاتاہے۔
بارات میں خواتین کا بھی ایک ریلا شریک ہوتا ہے جو سب بے پردہ،نہایت بھڑ کیلے،زرق برق ، حتی کہ عریاں اور نیم عریاں لباس میں ملبوس ، نہایت بے ہودہ میک اپ اور سولہ سنگھار سے آراستہ اور زیورات میں لدی پھندی ہوتی ہیں گویا وہ شادی کی ایک بابرکت تقریب میں نہیں بلکہ وہ مقابلہ حسن یا آرائش وزیبائش اور بے پردگی وبے حیائی کے مقابلے میں شریک ہونے کے لیے جارہی ہیں۔
اب بہت سی جگہوں پر مخلوط اجتماع بھی ہونے لگے ہیں ، یعنی مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ حصے نہیں ہوتے، کھانے کا الگ الگ انتظام نہیں ہوتا بلکہ بغیر کسی تفریق اور پردے کے مرد اور