کتاب: البیان اسلامی ثقافت نمبر - صفحہ 321
ترجمہ : اور (اے پیغمبر،) میرے (فرماں بردار) بندوں سے کہہ دو کہ (مخالفین سے کوئی بات بھی کہیں تو) ایسی کہیں کہ وہ (اخلاق کے اعتبار سے) بہترین ہو ۔ کیونکہ شیطان (سخت بات کہلوا کر) لوگوں میں فساد ڈلواتا ہے اور اس میں شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ بلکہ اسلام نے بیشتر مقامات پر زبان کو کنٹرول رکھنے کا حکم دیا ہے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : " هَلْ يُكَبُّ النَّاسَ عَلٰى مَنَاخِرِهِمْ فِي النَّارِ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتُهُمْ"[1] ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو اپنی زبان پکڑ کر فرمایا اس کو روک کر رکھو ( معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم جو کچھ بولتے ہیں کیا اس پر بھی ہمارا مؤاخذہ کیا جائے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (پیار سے ڈانٹتے ہوئے) فرمایا معاذ! تمہاری ماں تمہیں روئے، لوگوں کو ان کے چہروں کے بل جہنم میں ان کی دوسروں کے متعلق کہی ہوئی باتوں کے علاوہ بھی کوئی چیز اوندھا گرائے گی ؟ ‘‘ خلاصہ کلام : اسلام کا آزائ اظہار رائے کا فلسفہ مغرب اور نظریہ استبداد ( فرعونی فکر ) سے بالکل مختلف ہے ۔ اور عین عدل کے مطابق ہے ۔ اسلام نے اظہار رائے کی آزادی دی ہے اور اس میں عین عدل کے تقاضے کو ملحوظ خاطر رکھا ہے اور اس کے ایسے ضوابط متعین فرمائے ہیں جن سے انسان کا ایمان بھی محفوظ رہتا ہے ، معاشرہ بھی پر امن رہتا ہے ، اور انسان شخصی نقصانات ، باہمی کینہ ، بغض وعداوت سے بھی محفوظ رہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو راہ حق کا متبع بنائے انہ ولی التوفیق و صلى الله تعالى على نبينا محمد
[1] جامع الترمذی : کتاب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی اللعنۃ