کتاب: البیان اسلامی ثقافت نمبر - صفحہ 319
پیشوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام پر فائز ہوجائے گا جوکہ دین میں تبدیلی کے مترادف ہے ۔ ‘‘
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :
" ليس لأحد أن يلزم أحداً بقبول قول غيره ولو كان حاكماً."[1]
’’ کسی کیلئے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ کسی غیر کے قول کا کسی کو پابند بنائے چاہے وہ حاکم وقت ہی کیوں نہ ہو ‘‘
پانچواں اصول : رائے کے اظہار سے کسی کو نیچا دکھانا مقصو د نہ ہو بلکہ مخلصانہ نصیحت مراد ہو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
" الدِّينُ النَّصِيحَةُ ثَلَاثًا قُلْنَا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ".[2]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا کہ دین خیر خواہی کا نام ہے ! ہم نے عرض کیا کہ کس چیز کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی ، اس کی کتاب کی ، اس کے رسول کی ، مسلمانوں کے ائمہ کی اور تمام مسلمانوں کی ‘‘۔
اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ یہ حدیث ان چند احادیث میں سے ہے جس پر فقہ کا مدار ہے ۔
محمد بن اسلم الطوسی فرماتے ہیں یہ حدیث دین کا ایک چوتھائی حصہ ہے ۔
عامۃ المسلمین کو نصیحت سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنےبھائی کے لئے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتاہے ، اور جس چیز کو خود ناپسند سمجھتا ہے اپنے بھائی کیلئے بھی اسے ناپسند سمجھے ، ان سے شفقت کا برتاؤ کرے ، چھوٹے پر شفقت اور بڑے کا احترام کرے ۔ ان کی خوشی پر خوش ہو اور ان کے غم پر غمگین ہو ، اگرچہ اس سے اسے دنیاوی معاملات میں کوئی گزند بھی پہنچے تو اپنے بھائی کی بھلائی کی خاطر اسے برداشت کرے ۔
ابن علیہ ابوبکر المزنی سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جو اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر فوقیت اور فضیلیت ملی وہ نماز ، روزے کی وجہ
[1] فتاوى ابن تيمية (35/387 )
[2] صحیح مسلم : کتاب الایمان ، باب بیان أن الدین النصیحۃ