کتاب: البیان اسلامی ثقافت نمبر - صفحہ 268
ہےکہ دونوں میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عورت کو حصہ مل جاتا ہے اور مردمحروم ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی شخص فوت ہوا ،اور ورثاء میں بیٹی /بیٹیاںاور سگی بہن /بہنیں ہیں،اور چچا/علاتی بھائی/اخیافی بھائی ہیں۔ اس صورت میں بیٹی/بیٹیاںاور سگی بہن /بہنوں میں ہی کل مال تقسیم ہوجاتا ہے ،اور چچا/علاتی بھائی/اخیافی بھائی محروم ہوجاتے ہیں۔ اور پھر میت کے ورثاء میں سے تین قسم کے مردوں (شوہر ،بیٹا اور باپ) کی طرح تین قسم کی عورتیں بھی ایسی ہیں جو کلی طور پر میت کی وراثت سے محجوب (محروم) نہیں ہوسکتیں اور وہ بیوی ،بیٹی اور ماں ہیں ۔ خلاصه کلام خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلامی نظام وراثت ایک ایسا عادلانہ نظام ہے کہ جس میں میت کے لئے وصیت کا حق رکھا گیا لیکن اس کی حدود کو بیان کردیا گیا۔تاکہ کسی بھی طبقے کے ساتھ ظلم و زیادتی نہ ہو۔ غیر مستحقین کے قبضے اور غصب کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ اور اس میں ذرا برابر بھی قبضہ مافیا کی کوئی گنجائش نہیں۔ میراث میں عورت کا حصہ مقرر کیا اور اس حوالے سے ظلم کی تمام صورتوں کو ختم کیا۔بلکہ معاشرے کے کمزور سے کمزور طبقے تک وراثت کی تقسیم کو پہنچایا گیا ہے۔ عمر کے حوالے سے صغر و کبر کے فرق کا ایسا خاتمہ کردیا گیا کہ کوئی بد نیت کسی کی صغر سنی کا فائدہ نہیں اٹھاسکتا۔ ورثاء کے حصے کو ان کی حیثیت ،درجہ اور ذمہ داری کو ملحوظ رکھتے ہوئے حصہ مقرر کیا گیا۔ واللہ ولی التوفیق ،وما علینا الا البلغ المبین