کتاب: البیان اسلامی ثقافت نمبر - صفحہ 224
سلام کرنے کے بعد اپنا تعارف کرایاجائے : مثلاً یوں کہے کہ’’ میں فلاں بول رہا ہوں‘‘الا یہ کہ جس سے اس قدر شناسائی ہو کہ آواز فوراً پہچان میں آجاتی ہو ،ایسی جگہ تعارف کرانے کی ضرورت نہیں ۔ کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ بات کرتے وقت پوچھنے لگتے ہیں کہ’’ آپ نے مجھے پہچانا ؟‘‘ اِس سے آدمی حرج میں پڑجاتا ہے پھراِس انداز میں پوچھنابھی تو اسلامی اد ب کے خلاف ہے ، نام بتانے میں آخر حرج کیا ہے؟ ۔ صحیحین کی روایت ہے سیدنا جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : "أتیتُ النبیَّ صلی اللہ علیہ وسلم فی دَینٍ کان علٰی أبی فدققتُ البابَ فقال: من ذا ؟ فقلتُ: أنا ، فقال : أنا أنا کأنہ کرھہا "[1] ’’میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک قرض کے سلسلے میں مدد کے لیے آیا جسے میرے والد نے لیا تھا اور آپ کو آواز دی تو آپ نے فرمایا : کون؟ میں نے کہا: ’’ أنا ‘‘ یعنی میں ہو ں ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو یہ کہہ رہے تھے ’’میں، میں‘‘ گویاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے جواب پر ناپسندیدگی کااظہار فرمایا ‘‘۔ کیونکہ ’’میں ‘‘ کہنے سے کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی ۔‘‘ آج بھی کتنے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب دروازے پر دستک دیں گے اور آپ اُن سے پوچھیں کہ’’کون‘‘ ؟ تو کہیں گے ’’میں‘‘بھئی ! ’’میں‘‘ کہنے سے کیا سمجھ میں آئے گا ، لہٰذا فون کرنے والے کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنا نام بتائے تاکہ جس سے بات کررہا ہے وہ مشکل کا شکار نہ ہو اور فوراً پہچان لے۔ جسے فون کر رہے ہوں اس کے حالات کا خیال رکھیں: ممکن ہے جس کو آپ نے فون کیا ہے وہ آدمی اپنے ذاتی کام میں مشغول ہویا ایسی جگہ پر ہو جہاں فون اٹھانا اُس کے لیے مناسب نہ ہو۔ ایسی صورت میں اگر جواب نہ ملا ، یا جواب میں جلد بازی پائی گئی یا گرم جوشی سے جواب نہ مل سکا توفون کرنے والے کو چاہیے کہ اس کے بارہ میں حسن ظن رکھے ۔ اُسی طرح
[1] بخاری:كتاب استئذان،باب اذا قال من ذا فقال انا