کتاب: البیان اسلامی ثقافت نمبر - صفحہ 171
طاقت نہیں ہے وہ روزے رکھے اس سے اس کی نفسانی خواہشات کم ہو جائیں گی ۔۔۔۔ الایامی :اَیّـمکی جمع ہے ۔اَیّـم اس عورت کو کہا جاتا ہے جس کا خاوند نہ ہو اور اس مرد کو کہا جاتا ہے جس کی بیوی نہ ہو ، اب چاہے شادی کے بعد ایک دوسرے سے الگ ہو گئے ہوں یا شادی ہی نہ کی ہو ۔ علامہ جوہری نے انہیں اہل لغت کے حوالہ سے بیان کیا ہے‘‘۔
علامہ کاسانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’و الأ یّـم اسم لانثیٰ من بنات آدم علیہ الصلاۃ و السلام ، کبیرۃ کانت او صغیرۃ لا زوج لھا"[1]
’’اَیّم ، نام ہے آدم علیہ السلام کی بنات میں سے، چاہے بڑی ہو یا چھوٹی پر اس کا خاوند نہ ہو۔‘‘
قاضی عیاض رحمہ اللہ (وفات: 544ھ) ایم کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اہل لغت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ’’اَیّم‘‘کا اطلاق ہر ا س عورت پر ہوگا جس کا خاوند نہ ہو پھر چاہے چھوٹی ہو یا بڑی ، چاہے بیوہ ہو یا کنواری یا مطلقہ ۔[2]
علامہ ابن العربی(وفات: 543ھ) اَیّم کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’جس کا خاوند نہ ہو چاہے کنواری ہو یا بیوہ (مطلقہ) بالغ ہو یا نابالغ‘‘[3]
معلوم ہوا کہ مرد یا عورت چھوٹے ہوں یا بڑے، کنوارے ہوں یا بیوہ (مطلقہ) بالغ ہوں یا نابالغ ، مذکورہ بالا حدیث ان کے نکاح کے درست ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
علامہ ماوردی شافعی کہتے ہیں:
"واستدلواعلی جواز تزویجھا قبل البلوغ بعموم قولہ تعالیٰ: وانکحوا الأیّامی منکم"[4]
’’علماء نے ،اللہ تعالیٰ کے فرمان: وانکحوا لایامیٰ منکم سے استدلال کیا ہے کہ بلوغت سے قبل بھی شادی ہوسکتی ہے‘‘۔
[1] بدائع الصنائع: 3/363
[2] اکمال العلم: 4/564
[3] عارضۃ الاحوذی: 5/25
[4] الحاوی الکبیر: 9/66