کتاب: البیان اسلامی ثقافت نمبر - صفحہ 169
حق مہر کم کرکے نکاح کرنا چاہتا ہو تو ایسے لوگوں کو ایسی یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے سوائے اس بات کے کہ وہ لڑکیوں کے حق مہر کے معاملہ میں انصاف سے کام لیں اور اگر انصاف نہ کر سکیں تو ان یتیم لڑکیوں کو چھوڑ کر دوسری عورتوں سے نکاح کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: لوگوں نے بعد میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ کے بارے میں سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اس آیت میں یہ حکم صادر فرمایا کہ جب یتیم لڑکیا ں مال ودولت اور حسن و جمال والی ہوتی ہیں تو مہر میں کمی کرکے ان سےنکاح کرنا پسند کرتے ہیں اور اگر لڑکی مال ودولت والی نہیں ہے تو اس کو چھوڑ کر دوسری عورتوں سے نکاح کرتے ہیں ، یہ کیسی بات ہوئی؟ ان کو چاہیے کہ جب مال و دولت اور حسن و جمال کے نہ ہونے پران لڑکیوں کو چھوڑ دیتے ہیں اسی طرح اس وقت بھی ان کو چھوڑ دیں جب وہ مالدار اور خوبصورت ہوں ، البتہ اگر انصاف کریں اور پورا حق مہر ادا کریں تو پھر نکاح کرسکتے ہیں۔[1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: "فیہ دلالۃ علی تزویج الولی غیر الاب التی دون البلوغ بکرا کانت او ثیبا، لان حقیقۃ الیتیمۃ من کانت دون البلوغ ولا اب لھا ۔ وقد اذن فی تزویجھا بشرط ان لا یبخس من صداقھا فیحتاج من منع ذالک الی دلیل قوی "[2] ’’اس حدیث سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ اگر لڑکی کا ولی والد کے علاوہ کوئی اور ہے تو وہ نابالغ لڑکی کا نکاح کروا سکتا ہے چاہے لڑکی کنواری ہو یا ثیبہ (جس کا خاوند فوت ہو چکا ہو یا مطلقہ ہو، مطلب کہ وہ اب کنواری نہ ہو)کیونکہ حقیقتاً یتیم وہی لڑکی ہے جو نابالغ ہو اور اس کا والد بھی نہ ہو، ایسی لڑکی سے شادی کی، اس صورت میں اجازت دی گئی ہے کہ حق مہر میں سے کچھ بھی کم نہ کیا جائے ، جو بھی اس شادی سے منع کرتا ہے اسے اس سے بھی زیادہ مضبوط دلیل پیش کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: "و فیہ جواز تزویج الیتامی قبل البلوغ لانھن بعد البلوغ لا یقال لھن یتیمات
[1] بخاری:كتاب النكاح ،باب تزويج اليتيمة [2] فتح الباری: 10/348