کتاب: البیان اسلامی ثقافت نمبر - صفحہ 167
مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ ۙ وَّاڿ لَمْ يَحِضْنَ ]فجعل اڿ لم یحضن عدۃ ثلاثۃ اشھر ولا تکون عدۃ ثلاثۃ اشھر الا من طلاق فی نکاح او فسخ فدل ذالک علی تزوج و تطلق" ترجمہـ:’’چھوٹی لڑکی کے نکاح کے جائز ہونے پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے کہ ’’تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے نا امید ہو گئی ہوں ، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا ابھی شروع ہی نہ ہوا ہو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ایسی عورتوں کی عدت تین مہینے مقرر کی ہے جن کو حیض نہ آیا ہو اور تین مہینے عدت صرف طلاق ہونے یا نکاح فسق ہونے کی صورت میں ہوتی ہے۔ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ چھوٹی لڑکی کا نکاح بھی ہو سکتا ہے اور اس کو طلاق بھی دی جا سکتی ہے‘‘۔ [1] علامہ نفراوی مالکی رحمہ اللہ (وفات:1126ھ) لکھتے ہیں: "ان کانت مطلقۃ ممن لم تحض لصغر ولکن مطیقۃ للوطء او کانت کبیرۃ لکن قد یئست من المحیض بان جاوزت السبعین، فثلاثۃ اشھر عدتھا فی حق الحرۃ و مثلھا الامۃ علی المشھور لقولہ تعالیٰ: [وَاڿ يَىِٕسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ ۙ وَّاڿ لَمْ يَحِضْنَ ] ای : عدتھن کذالک"[2] ’’اگر مطلقہ عورت ان عورتوں میں سے ہے جن کو کم سنی کی وجہ سے حیض نہیں آیا ہے پر وہ ہم بستر ہونے کی طاقت رکھتی ہے یا بڑی عمر کی ہے اور حیض سے ناامید ہو گئی ہو کیونکہ اس کی عمر ستر برس سے بھی بڑھ گئی ہے تو پھر ایسی صورت میں اس کی عدت تین مہینے ہے پھر چاہے عورت آزاد ہو یا لونڈی ، مشہور مذہب بھی یہی ہے دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے...‘‘ مشہور شیعہ عالم محمد بن حسن الطوسی (وفات:460ھ) اپنی مشہور تفسیر ’’التبیان فی تفسیر القرآن‘‘ میں سورۃ الطلاق کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
[1] المغنی: 9/398 [2] فواکہ الدوانی: 2/92