کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 95
کافروں کے معبودانِ باطلہ کو گالی دینے، اُن پر سب کرنے سے منع فرمایا ہے تاکہ ایسا کرنا جواباً معاذ اللہ،اللہ تعالیٰ پر سب و شتم کا ذریعہ نہ بنے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ِ مبارک ہے: { يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا وَلِلْکَافِرِيْنَ عَذَابٌ أَلِيْمٌ} [البقرۃ: 104] ترجمہ:’’ اے ایمان والو تم (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو) ' راعنا ' نہ کہا کرو، بلکہ ' انظرنا ' کہو یعنی ہماری طرف دیکھئے اور سنتے رہا کرو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے‘‘۔ آیتِ مذکورہ میں نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کو’’راعنِا‘‘کہہ کر مخاطب کرنے سے منع کیا گیا ہے جبکہ ’’راعنِا ‘‘ کا معنی فی ذاتہ غلط نہیں ہے ، (راعنِا کامعنی ہے کہ: ہماری طرف متوجہ ہوئیے)لیکن چونکہ یہودی جب اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے تو اپنی زبانوں کو ٹیرھا کرکے’’راعِینا‘‘ (’’یا‘‘ کے اضافہ) کے ساتھ مخاطب کرتے جس کا معنیٰ ہے : ہمارے چرواھے۔ اور اس طرح بول کر وہ اپنے زعم میں نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ استہزاء کرتے والعیاذ باللہ ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایسے لفظ استعمال کرنے سے ہی روک دیا جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت و گستاخی کا سبب بنیں،اگرچہ وہ لفظ فی نفسہ ٹھیک ہی کیوں نہ ہو۔ اس مسئلہ میں اہلِ علم ایک اہم مثال ذکرتے ہیں کہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کو محض اس لئے قتل نہیں کیا کہ کہیں لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ محمّد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں ، اور نئے اسلام میں داخل ہونے والے مسلمان شبہات و غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائیں ، یعنی منافقین کا قتل کہیں سیدنا محمّد صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن و تشنیع اور مسلمانوں کے شبہات میں مبتلا ہونے اور اُن کے باہمی اختلاف و انتشار کا سبب نہ بنے اور ان کی وحدت پارہ پارہ نہ ہوجائےاس لئے ایسا نہیں کیا گیا۔