کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 94
مثلاً:ایک شخص کو ایک لاکھ روپے کی ضرورت ہےجو وہ کسی سے ادھار طلب کرتا ہے،ادھار دینے والا اُسے پیسے دینے کے بجائے اُس سے ایک سودا کرتا ہے کہ: ضرورت مند اُس سے اس کا مال مثلاً کپڑا ایک لاکھ دس ہزار میں ادھار پر خریدلے ، اور پھر وہ (مالک) ایک لاکھ دس ہزار کا مال نقداً اُس (ضرورت مند) سے ایک لاکھ میں واپس خرید لے گا ۔اس طرح ضرورت مند کو ایک لاکھ مل جائیں گے اور مالک کو دس ہزار اضافی ۔(جوکہ ضرورت مند مقروض نے اسے بعد میں ادا کرنے ہیں) شریعتِ مطہّرہ نےاس قسم کےمعاملہ سے اس لیے منع فرمادیا کیونکہ یہ سودکےدروازے کھولتاہے،غور کیجیے کہ فروخت کنندہ نےبظاہراً تو مال کا سودا کیا ہے لیکن درحقیقت ایک لاکھ دیکر ، ایک لاکھ دس ہزار یعنی پیسے کے بدلے پیسہ واپس لیے ہیں۔ نوٹ: مذکورہ صورت میں اگر یہ سودا پہلے سے طے شدہ نہ ہو یا مالک ،ضرورت مند سے اُسی قیمت (یعنی ایک لاکھ کے بدلے ایک لاکھ )میں یا کم کے بجائے اضافی قیمت (یعنی ایک لاکھ کے بدلے میں ایک لاکھ دس ہزار)میں واپس خرید تا ہے تو یہ بالاتفاق جائز ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ شریعتِ مطہّرہ میں بے شمار مسائل میں اس اصول’’سدّ الذرائع ‘‘ کو مدِّ نظر رکھاگیا ہے ۔اور یہ قاعدہ ہمارے لئےعقائد عبادات و معاملات وغیرہ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور خلافِ شرع امور سے بچنے کا بنیادی ذریعہ ہے جسے سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے میں ہی خیر و عافیت ہے ۔ قاعدہ سدّ الذرائع کےچند اہم دلائل اللہ تعالیٰ کا فرمانِ مبارک ہے: {وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللّٰه فَيَسُبُّوا اللّٰه عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ} [الأنعام: 108] ترجمہ: ’’(اے مسلمانو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالی نہ دو۔ ورنہ یہ لوگ جہالت کی وجہ سے چڑ کر اللہ کو گالی دیں گے‘‘۔ کافروں کی عبادت اور اُن کا غیر اللہ کو معبود بنانا باطل و منکر عمل ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے