کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 86
’’ظلم‘‘کہلاتا ہے ۔
قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ میں ظلم کی تمام صورتوں کی سخت حرمت و مذمت بیان کی گئی ہے ، خواہ وہ حقوق اللہ سے متعلق ہو یا حقوق العباد سے، حاکم کی طرف سے ہو یا محکوم کی،سب سے بڑا ظلم ہو جو کہ شرک ہے یا کوئی ادنیٰ، اسی طرح ظالم کا ساتھ دینا یا اُس کی حمایت کرنا بھی خودظلم کرنے کے مترادف ہے ، لہٰذا ظالم کو اُس کے ظلم سےحسبِ استطاعت روکنااور مظلوم کی حمایت و دلجوئی کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے {لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ} [البقرۃ: 279]
ترجمہ:’’نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے‘‘۔
سیدناابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’میں نے اپنے آپ پر اور اپنے بندوں پر ظلم کو حرام قرار دیا ہے تو تم آپس میں ظلم نہ کرو‘‘۔[1]
اورسیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ’’کسی کو نہ ابتدا ءً نقصان پہنچایا جائے اور نہ ہی بدلے میں‘‘ ۔[2]
چوتھا ضابطہ:ہر معاملہ،مقصودہ چیز میں غرر(کسی بھی قسم کے دھوکہTricked and uncertainty) اورجہالت(لاعلمی Obscurity ) سے پاک ہو
عربی لغت میں غرر سے مراد : دھوکہ وخطر ہے ،
اصطلاح میں غرر سے مراد :
ہر وہ چیز ہے کہ جس کا ذریعہ حصول یا حقیقت یا مقدار (Quantity)مجہول ہو، جس کی وجہ سے اس میں دھوکہ کا عنصر پیدا ہوجائے۔
اس ضابطہ سے مراد یہ ہے کہ :
ہر وہ معاملہ جس میں بیچی یا خریدی جانے والی چیز کا ذریعہ حصول معلوم نہ ہو یا اس کی حقیقت یا مقدار
[1] صحيح مسلم:باب تحريم الظلم
[2] سنن ابن ماجہ:کتاب الأحکام باب من بنى في حقہ ما يضر بجارہ. ( یہ حدیث حسن لغیرہ ہے )