کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 80
ہوں، کامیاب نظامِ معیشت کے قیام کے لئے یہ لازمی ہے کہ کاروبار و کاروباری مراکز سے متعلقہ تمام افراد شرعی اصول و ضوابط کا بھر پور علم رکھیں اور عملاً اُ ن کی پیروی کریں ، جائز و ناجائز پیشے ، خرید و فروخت ، کاروبارو تجارت میں حلال و حرام کی تمیز اور دورانِ تجارت صحیح اور غلط وغیرہ کا مکمل علم ہوناچاہئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:’’ لايبع في سوقنا الّا من تفقہ في الدّين‘‘۔ [1] ’’ہمارے بازاروں میں صرف وہی خرید وفروخت کرے جسے دینی احکام کی سمجھ ہو‘‘۔ اسلامی تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات آپ کو ملیں گے کہ حکمرانوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً باقاعدہ کاروباری مراکز کا جائزہ لیا جاتا تھا اور ایسے لوگوں کو باہر کردیا جاتا تھا جومعاملات میں شرعی احکامات سے واقف نہ ہو ں یا اپنی معیشت و کاروبار میں جائز و ناجائز ، حلال و حرام کا خیال نہ رکھتے ہوں ،جبکہ آج ہمارے نظامِ معیشت کی بربادی ،غربت و افلاس کی بڑھتی ہوئی صورتحال ، ظلم، زیادتی و ناانصافی اور پریشان حالی کا سب سے بڑا اور بنیادی سبب ہی احکامِ شرعیہ سے جہالت یا جان بوجھ کر اُن سے صرفِ نظر کرنا اور حلال و حرام کی تمیزکو بالائے طاق رکھتے ہوئے فقط نفس کی ہوس کو مٹانا ہے۔ واللہ المستعان (3) جائز و ناجائز کے درمیان مشتبہ امور و مشکوک معاملات سے اجتناب کرنا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے کہ:یقیناً حلال بھی واضح ہے اور یقینا ً حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ امور ہیں جنہیں لوگوں کی اکثریت نہیں جانتی، پس جو اُن مشکوک و مشتبہ امور سے دور رہا ، اور اپنے آپ کو اُن سے بچالیا تو اُس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور محفوظ کرلیااور جو ان شبہات میں مبتلا ہوگیا وہ حرام میں واقع ہوگیا ۔۔۔۔۔الخ[2] کاروبار و تجارت میں کافی ایسے معاملات ہیں جن کا حلال و جائز ہونا شرعی لحاظ سے مشکوک و مشتبہ ہے جیسے:  وہ کاروباری معاملات جو بنیادی طور پر تو جائز ہیں لیکن ان میں ناجائز و حرام امور بھی موجود ہیں ۔
[1] شرح السنۃ: کتاب الحج باب الإتقاء عن الشبہات ص1087 حديث:2034 [2] صحيح بخاري:کتاب البيوع ، باب الحلال بين، والحرام بين، وبينہما مشتبھات، صحيح مسلم :کتاب المساقاۃ باب أخذ الحلال