کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 8
1969 ء میں ملائیشیا میں تبونگ حاجی ’’ حجاج کا انتظامی فنڈ اور بورڈ ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیاجس کا کام حجاج کرام کو مالیاتی سہولیات فراہم کرنا تھا ۔بالعموم یہ تصور پایا جاتا ہے کہ مصر کے میت غمراور ملائیشیا کے تبونگ حاجی بورڈ اسلامی بینکاری کی عملی صورت تھی ،مگر اسلامی بینکاری کے قیام کی اولین عملی اور تطبیقی صورتوں میں اگر ان دو اداروں کا جائزہ لیا جائے تو انہیں اسلامی بینکاری کی ایک ابتدائی نامکمل صورت تو کہا جا سکتا ہے لیکن اس پر مکمل اسلامی بینک کا اطلاق کرنا صحیح معلوم نہیں ہوتا کیونکہ یہ دونوں ادارے انتہائی محدود مقاصد کیلئے قائم کئے گئے تھے ۔ میت غمر پراجیکٹ کا دائرہ عمل دیہی کاشتکاروں اور ملائیشیا کے تبونگ حاجی کے پیش نظر حاجیوں کو مالیاتی سہولیات فراہم کرنا تھا ۔ جو مکمل بینکاری نہیں بلکہ اس کی ابتدائی شکل ہے ۔
1971ء میں مصری وزارت خزانہ نے ناصر سوشل بینک کے نام سے ایک بینک قائم کیا۔ یہ ایک باقاعدہ طور پر سرکاری بینک تھا جو سرکاری وسائل سے وجود میں آیا تھا ۔ اس کے بعد 1975ء میں پرنس محمد الفیصل کی کاوشوں سے اسلامی ترقیاتی بینک(Islamic Development Bank) قائم ہوا۔ 1975ء میں ہی دبئی اسلامی بینک قائم ہوا ۔ دبئی اسلامی بینک کے بعد جس ادارے نے اس میدان میں نمایاں کردار ادا کیا وہ کویت فنانس ہاؤس کے نام سے 1977ء میں وجود میں آیا ۔
اسلامی بینکاری کے ماہرین نے 70 کے عشرہ کو اسلامی بینکاری کے جنم لینے کے عشرہ سے تعبیر کیا ہے معروف ماہر معیشت ڈاکٹر محمود احمد غازی فرماتے ہیں :
’’ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سنہ 70 کا عشرہ اسلامی بینکاری کے جنم لینے کا عشرہ ہے ۔ اس عشرے میں دبئی ، سوڈان ، مصر ، کویت ، اور بحرین میں متعدد اسلامی بینک وجود میں آئے ۔ ان ممالک میں ان بینکوں کو بعض مراعات بھی دی گئیں ۔ بعض ممالک میں ان بینکوں کو قواعد اور احکام کے مطابق بعض قوانین سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ‘‘۔ [1]
اسلامی بینکاری کو ممکناتی عملی صورت میں لانے کیلئے کی جانے والی کاوشوں کو چارمراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔
[1] حاضرات معیشت وتجارت ، ص/ 376