کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 55
وَلٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ؀{[الاعراف : 96] ترجمہ :’’اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور ہماری نافرمانی سے بچتے تو ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی سو ان کے اعمال کی پاداش میں ہم نے ان کو پکڑ لیا ‘‘۔ اور جب کسی بستی سے نعمتیں چھین لینا چاہے تو بظاہر ان کی معیشت کتنی ہی مضبوط ہو سزا کا قانون الہٰی ان پر نافذ ہوکر ہی رہتا ہے ۔ وَكَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍۢ بَطِرَتْ مَعِيْشَتَهَا ۚ فَتِلْكَ مَسٰكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِيْلًا ۭ وَكُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِيْنَ ؀( القصص : 58) ترجمہ:’’اور ہم نے بہت سی بستیوں کو تباہ کر ڈالا جو اپنی معیشت(کی فراخی ) پر اترارہے تھے پھر یہ ان کے محلات ہیں جو ان کے بعد بہت ہی کم آباد ہوئے اور ان کے پیچھے ہم ہی ان کے وارث ہوئے ‘‘۔ اسی لئے انسانیت کی فلاح دین حنیف دین اسلام کے دامن میں پناہ لینے میں ہے ۔جب وہ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوں گے کہ اس کے نظام اقتصاد یات کی برکات سے بھی بہرہ مند اور مستفید ہوں گے اس لئے کہ اسلام کا نظام معیشت اسلام سے الگ کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اسی شجرہ طیبہ کی ایک سرسبز و ثمر بار شاخ ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : } اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُهَا فِي السَّمَاۗءِ ؀ تُؤْتِيْٓ اُكُلَهَا كُلَّ حِيْنٍۢ بِاِذْنِ رَبِّهَا ۭ وَيَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ ؁ { [ابراھیم : 25 ۔ 34] ترجمہ :کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی مثال کیسی بیان فرمائی ہے وہ ایسے ہے کہ جیسے ایک پاکیزہ درخت جس کی جڑ مضبوط یعنی زمین کو پکڑے ہوئے ہے اور شاخیں آسمان میں ہیں۔ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا ہے ۔ اور یہ اسلام کے تعلیم کردہ راسخ عقائد ،قرآن حکیم اور جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ اور