کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 526
(4) اجارہ: اسلامی بینکوں میں جو اجارہ کیا جاتا ہے وہ اجارہ المنتھیۃ بالتملیک ہے، یعنی کرایہ کا معاہدہ اور پھر آخر میں اس چیز کی ملکیت کا تبادلہ، جو کہ اسی ایک معاہدہ کے ذریعہ ہوتا ہے ، یا اس مدت کے اختتام پر ایک نمائشی قیمت کے ذریعہ یا پھر ہدیہ کے ذریعہ۔ واضح رہے کہ عقد اجارہ یعنی کرایہ کا معاہدہ دراصل اس کی صرف ظاہری صورت ہے ، حقیقت میں بینک اور گاہک دونوں کا مقصود اس چیز کی خرید و فروخت ہوتی ہے، اور یہ اصول ہے کہ معاہدات میں مقاصد کو دیکھ کر حکم لگایا جاتا ہے نہ کہ ظاہری الفاظ کو دیکھ کر، لہذا اس معاہدہ پر بھی بیع کے احکامات لاگو ہوں گے نہ کہ کرایہ کے۔ مروجہ اجارہ میں شرعی قباحتیں : * عقد اجارہ کرتے وقت بینک کے پاس مطلوبہ چیز موجود نہیں ہوتی اور یہ بیع مالایملک ہے، جو کہ حرام ہے۔ * اگر ایک ہی معاہدہ میں کرایہ اور ملکیت کا تبادلہ ہو تو یہ ایک معاہدہ میں دو معاہدے ہیں جو کہ حدیث کی رو سے حرام ہے۔ * مروجہ اجارہ چونکہ درحقیقت خرید و فروخت کا معاہدہ ہے اس لئے بینک اس میں چیز کی قیمت بمع منافع کو اقساط میں تقسیم کرتا ہے پھر اسے کرایہ کی صورت میں وصول کرتا ہے، اور بینک اپنے منافع کو () یا () جو کہ شرح سود کے لئے Bench Mark ہے کے ذریعہ متعین کرتا ہے۔ شرح سود کو معیار مقرر کرنا مکمل معاملہ کو مشکوک بناتا ہے۔ * اجارہ میں بینک کا چیز کی ملکیت کو اپنے پاس رکھنا بھی جائز نہیں ، کیونکہ مروجہ اجارہ کا معاہدہ درحقیقت بیع و شراء کا معاہدہ ہے جس میں بینک بائع (فروخت کنندہ)ہے اور مستاجر(کرایہ دار) دراصل مشتری (خریدار) ہے اور چیز کی ملکیت مشتری (خریدار)کے پاس ہوتی ہے نہ کہ بائع (فروخت کنندہ)کے پاس۔ * اجارہ کی مدت کے اختتام پر ہدیہ کا وعدہ بھی درست نہیں ، کیونکہ یہ عام ہدیہ نہیں بلکہ ہدیۃ الثواب ہے کیونکہ یہ ان اقساط کی ادائیگی کے عوض میں ہدیہ ہے جو گاہک نے بینک کو ادا کیں، اور ہدیہ الثواب کا حکم بیع کاہی ہوتا ہے ، یعنی اجارہ کے معاہدہ میں ہدیہ کا وعدہ دراصل ایک معاہدہ میں دو معاہدے ہیں