کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 522
یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ نظامِ بینکاری کا تعلق ایسے جدید معاشی مسائل سے ہے جس میں اجتہاد کا عنصر زیادہ غالب ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ بینکاری انتہائی دقیق اور حساس مسائل پر محیط ایک نظام ہے، اور چونکہ اسلامی بینکاری، سودی نظام ِبینکاری کو ہی اسلامی مالیاتی نظام کے سانچہ میں ڈھالنے کی کاوش ہے تو اسے شریعت اسلامیہ کے عین مطابق قرار دینے سے پہلے دو پہلؤوں سے اس کا جائزہ لینا نہایت ضروری ہے: (1) فقہی اجتہادات یعنی جن اصولی بیوع پر اسلامی بینکاری کے معاملات کو قیاس کیا گیا ہے ، کیا ان اصولی بیوع اور اسلامی بینکاری کے لئے مجوزہ نظام میں مطابقت بھی ہے یا نہیں ؟ اور کیا ان اصولی بیوع کی شرعی شرائط وقیود کا اسلامی بینکاری میں خیال رکھا گیا ہے یا نہیں؟۔ مثال کے طور پر اسلامی بینک کےبچت کھاتہ (saving account) کو شرعی مضاربہ پر قیاس کیا جاتا ہے تو فقہی حوالہ سے اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ کیا بچت کھاتہ کا نظام اور اس کی تمام شرائط وقیود شرعی مضاربہ کے مطابق ہیں یا نہیں۔ (2)عملی تطبیق یعنی علماء نے بحث و تمحیص و اجتہادات کے ذریعہ اسلامی بینکاری کے لئے جو نظام تجویز کیا ہے تو عملی تطبیق کے حوالہ سے اس کا جائزہ لینا نہایت ضروری ہے کہ اسلامی بینکوں میں عملی طور پر جو معاہدات وقوع پذیر ہوتے ہیں وہ اسلامی بینکاری کے لئے مجوزہ نظام سے حقیقی مطابقت بھی رکھتے ہیں یا نہیں؟۔ان تمام معاہدات کی ہر شق اور ہر شرط کی نہایت باریک بینی سے جانچ پڑتال انتہائی ضروری ہے ؛ کیونکہ بسا اوقات ایک شرط پورے معاہدے کو حرام صورت میں بدل دیتی ہے ، اور بسا اوقات معاہدے میں عملی لحاظ سے معمولی سی تبدیلی پورے معاملہ کو سودی معاملہ کی شکل دیدیتی ہے۔ الغرض :اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی بینکوں میں موجود شرعی خامیوں کی نشاندہی سے ہرگز بھی یہ مراد نہیں کہ اسلام میں بینکوں کی گنجائش نہیں، یا یہ کہ ہم سودی بینکوں کو رواج دینے اور تقویت دینے میں معاون ہیں۔مقصد صرف اصلاح ہے کہ ایک اچھا قدم جو اٹھایا گیا ہے وہ اچھائی کی جانب گامزن