کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 472
لیکن تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ یہ جرمانہ مالی نہیں لگایا جائے گا ، ابن المبار ک اس حدیث کی توضیح میں فرماتےہیں : ’’عزت حلال ہونے سے مراد ہے کہ اس پر سختی کی جائے گی اور اس کی سزا سے مراد ہے کہ اسے قید کردیا جائے گا‘‘[1]۔اسی طرح اس کی حرمت پر اجماع کو ابن المنذر نے بھی ذکر کیا ہے ،فرماتے ہیں :
" أجمعوا على أن المسلف إذا شرط على المستسلف زيادة أو هدية فأسلف على ذلك: أن أخذ الزيادة على ذلك ربا"
’’اس بات پر تمام علماء کا اجماع ہے کہ جب قرض دینے والا ، قرض لینےوالے پر یہ شرط لگائے کہ وہ اسے بڑھا کر دے گا ، یا کوئی ہدیہ دے گا اور اس شرط پر وہ اسے قرضہ دے تو اس کا یہ زائد رقم لینا سود ہے‘‘[2]۔
تاخیر کا خدشہ ہر دور میں رہا ، لیکن کسی بھی عالم نے اس جرمانہ کو جائز قرار نہیں دیا۔ لہذا مالی جرمانہ کے علاوہ کوئی بھی سزا دی جاسکتی ہے۔
سوال نمبر 2 : کیا کوئی بھی اسکول کا ادراہ اپنے طلباء پر تاخیر سے فیس جمع کرانے کی صورت میں جرمانہ عائد کرسکتا ہے جومدرسین کی تنخواہ میں تاخیر کا باعث بنتی ہے ؟ (عبد الرحمن )
سوال نمبر 3 : لیٹ فیس کا اسلام میں کیا حکم ہے اگر یہ حرام ہے تو اس کا کیا بدل ہونا چاہئے؟قرآن و سنت کی روشنی میں بیان فرمائیں ؟(سبحان محمود)
جواب: اسکول اور کالجز میں فیس دو طرح کی ہوتی ہے :
aایک وہ فیس جو طالب علم پر قرض ہوتی ہے ، یعنی اس نے ایک مہینہ اسکول میں پڑھا ، اسکول میں پڑھائی کے اخراجات اس پر قرض ہیں ، جو اس نے فیس کی صورت میں ادا کرنے ہیں۔ اس فیس پر مالی جرمانہ نہیں لگایا جاسکتا ، کیونکہ یہ سود کے زمرہ میں داخل ہے ،البتہ جان بوجھ کر تاخیر کرنے کی صورت
[1] سنن أبي داؤد :3628
[2] المغني لابن قدامة 4/354