کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 468
کے بدلہ رہن رکھوانے میں کوئی حرج نہیں بلکہ بعض معاملات میں رہن رکھنے کی شریعت نے تاکید کی ہے ، فرمان الٰہی ہے:
{وَاِنْ كُنْتُمْ عَلٰى سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوْضَةٌ} [البقرة: 283]
اور اگر تم سفر پر ہو اور (دستاویز لکھنے والا مل نہ سکے) تو (کوئی چیز) رہن یاقبضہ رکھ کر(قرض لے لو) البتہ زیور بطور رہن کے رکھواتے وقت دو باتیں ذہن نشین ہونی چاہئیں۔
(۱) جو رقم دی جارہی ہو زیور کی قیمت سمجھ کر یا اس کے بدلہ نہ دی جارہی ہو کیونکہ اس صورت میں یہ خرید وفروخت کا معاملہ تصور ہوگا اور ایسی خرید و فروخت جس میں سونا یا چاندی شامل ہوں اسے بیع الصرف کہتے ہیں ، اور بیع الصرف کی شرط یہ ہے کہ معاملہ ہاتھوں ہاتھ نقد ہو اور فریقین میں سے کسی پرکسی قسم کا ادھار یا قرض باقی نہ رہے،حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیع الصرف کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" إِنْ كَانَ يَدًا بِيَدٍ فَلَا بَأْسَ، وَإِنْ كَانَ نَسَاءً فَلَا يَصْلُحُ [1]"
’’اگر وہ ہاتھوں ہاتھ ہے تو کوئی حرج نہیں اور اگر وہ ادھار ہے تو جائز نہیں‘‘۔
لہٰذا اگر ایسی کوئی صورت ہے تو اس کا حکم یہ ہوگا کہ یاتو قرض دینے والے کو زیور کا خریدار سمجھا جائے گا اور قرضدار کو زیور کا فروخت کنندہ اور اس صورت میں کوئی قرض باقی نہیں رہے گا ، یا پھر اس معاملہ کو فاسد سمجھ کر ختم کردیا جائے گا۔
(۲) قرض کی واپسی میں کسی زائد رقم کا مطالبہ نہ ہو ، اور نہ ہی تاخیر پر کوئی جرمانہ لگایا جائے۔
سوال نمبر 4 : ایک شخص ہمارے پاس کچھ رقم امانت رکھوانے کے لئے آتا ہے ،ہم اسے یہ مشورہ دیتے ہیں وہ یہ رقم ہمارے پاس بطور قرض حسنہ کے رکھوائے کیونکہ بطور امانت رکھوانے سے چوری کا خدشہ ہے اور اگر وہ یہ رقم ہمیں بطور قرض کے رکھوائیں گے تو ہم اسے کاروبار میں لگائیں گے اور اس سے جو ہمیں منافع ہوگاا سے ہم فلاحی کاموں میں استعمال کریں گے کیاایسا کرنا جائز ہے ؟(محمد رفیق)
[1] صحیح بخاری:کتاب البیوع، 2061