کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 460
مشین سے ایک خاص مقررہ حد تک بوقت ضرورت رقم حاصل کر سکتا ہے، اس مشین سے رقم حاصل کرنے کا اگرچہ سودی کاروبار سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے تاہم بینک کا ایک حصہ ہے ، اس بنا پر ہمارا رجحان یہ ہے کہ اس مشین کی خرابی دور کرنے میں چنداں حرج نہیں اور اس کی مزدوری لینا بھی جائز ہے لیکن اسے یہ مزدوری سودی کاروبار سے حاصل ہونے والی رقم سے ہی ادا کی جائے گی جو حلال اور پاکیزہ نہیں ہے ا س لئے تقوی کا تقاضہ یہ ہے کہ اس طرح کا ہنر پیشہ کے بجائے انسان کوئی دوسرا ہنرسیکھ لے اور اسے اپنا ذریعہ بنالے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’ جو کوئی اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لئے رنج وغم سے نجات کے لئے کوئی صورت پیدا کردے گا اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہیں ہوگا۔‘‘(الطلاق :2 ،3) بہرحال ایسے کام پر اجرت لینے کی گنجائش ضرور ہے اگرچہ بہتر ہے کہ ا س سے احتراز کیا جائے۔ واللہ اعلم سوال نمبر5 : کیا کسی بھی بینک یا اسلامی بینک کو کرایہ پر جگہ مہیا کی جاسکتی ہے ؟نیز اس کرایہ کی مد میں جو آمدنی ہوگی اسے استعمال میں لانا شرعاً کیسا ہے ؟( عبد الرحمٰن ) جواب : سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’لوگوں پر ایسا وقت آنے والا ہے کہ وہ اس میں سود کھائیں گے۔ عرض کیا گیا ، آیا سب کے سب لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوجائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو نہیں کھائے گا اسے بھی سود کی گرد و غبار پہنچ جائےگی۔‘‘[1] اس حدیث کے پیش نظر دور حاضر میں کوئی بھی اس وبائی مرض سے محفوظ نہیں ہے ، کسی نہ کسی حوالہ سے پرہیز گار کو بھی اس کی گرد و غبار سے ضرور واسطہ پڑ جاتا ہے ، ہمارے نزدیک صورت مسئولہ میں بھی اس قسم کا معاملہ ہے کیونکہ کرایہ وغیرہ کی رقم اس سودی کاروبار کی پیداوار ہوتی ہے جس پر بینک کے معاملات کی بنیاد کھڑی ہے ، چونکہ بینک سودی کاروبار کرتے ہیں اس بنا پر بینکوں کو سودی کاروبار کیلئے جگہ فراہم کرنا کہ وہ خود اس پر عمارت تعمیر کرلیں یا انہیں عمارت بنا کر کرایہ پر دینا شرعاًجائز نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنا ان کے حرام کاروبار میں براہ راست معاونت کرنا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’تم
[1] مسند احمد :2/494