کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 458
سوال نمبر 2: کیا اسٹیٹ بینک میں کام کرنا ایسے ہی حرام ہے جیسے دیگر کمرشل بینک میں حرام ہے ؟
( کفیل اسلم )
جواب : اصولی طور پر یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ بینک عام صارفین سے کم شرح سود پر رقوم لے کر دوسرے سرمایہ کاروں کو بھاری شرح سود پر منتقل کرتا ہے ، پھر سرمایہ کاروں سے ملنے والے سود کا کچھ حصہ عام صارفین کے کھاتے میں جمع کردیتا ہے ، اسی طرح تمام بینک اس امر کے پابند ہوتے ہیں کہ وہ سرمایہ کاروں سے پس انداز رقوم حکومتی (اسٹیٹ ) بینک کو ایک خاص شرح سود پر منتقل کریں پھر اسٹیٹ بینک سے ملنے والا سود تقسیم کیا جاتا ہے اسٹیٹ بینک بھی سودی کاروبار کرتا ہے اور وہ عالمی بینک کو بھاری شرح سود پر رقوم دیتا ہے اور سود کی لپیٹ میں درج ذیل قسم کے لوگ آتے ہیں۔
سود دینے والا سود لینے والا سود لکھنے والا اس پر گواہ بننے والا۔
یہ لوگ تو بلا واسطہ سود کی لپیٹ میں آتے ہیں ، چنانچہ حدیث میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے ، سود دینے والے ، لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی ہے نیز فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں ۔ [1]
بینک میں کام کرنے والے کچھ بالواسطہ طور پر اس لعنت زدگی کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ مثلاً بینک کو سہولیات فراہم کرنے والے چوکیدار ،پہرے دار اور ا س کے متعلق دیگر خدمات سر انجام دینے والے حضرات ، اس بناپر ہمارا رجحان یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک بھی سودی کاروبار سے محفوظ نہیں ہے اگرچہ اس کا سودی لین دین پبلک کے ساتھ نہیں ہوتا تاہم عالمی بینک اور دیگر کمرشل بینک اس کے ساتھ سودی کاروبار ضرور کرتے ہیں۔ اس بنا پر اسٹیٹ بینک میں بھی ملازمت یا کوئی بھی خدمت سر انجام دینے سے اجتناب کیا جائے زندگی کی گاڑی کو چلانے کیلئے کوئی اور ذریعہ تلاش کر لیا جائے۔
سوال نمبر 3 :میرے دوست کے والد بینک میں ملازم ہیں جبکہ میرا دوست ایک کمپنی میں ملازم ہے وہ دونوں باپ بیٹا اپنی سیلری جمع کرکے گھر کے اخراجات پورے کرتے ہیں ، ایسے حالات میں میرے
[1] صحیح مسلم :کتاب البیوع :4093