کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 426
لوگ ہی فقیر و لاغر ہو کر ذلت کی زندگی بسر کریں ۔جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو ایسی کوئی نصیحت نہیں فرمائی ۔۔۔اور معاذ کو صرف اتنا ہی بتایا کہ زکوٰۃ ان کے امراءسے لیکر ان کے فقراءمیں تقسیم کر دی جائیگی اور یہی حق ہے جو مال میں واجب ہوگا۔اور اگر فقراء کو اغنیاء کے مال میں شریک کرنا واجب ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم معاذ رضی اللہ عنہ کو ضرور بیان کرتے کیونکہ’’لا يجوز تاخير البيان عن وقت الحاجة‘‘[1] (5)نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل کو یمن کی طرف روانہ کرتے ہوئےفرمایا تھا: ’’ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو ان کے عمدہ اموال (بطور زکوٰۃ لینے سے )پرہیز کرنا،اور مظلوم کی بددعا سے بچنا ،کیونکہ اس کی بد دعا اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا‘‘۔[2] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے ڈرایا کہ بطور زکوۃ عمدہ اموال لئے جائیں اور یہ فرما کر کہ ’’مظلوم کی بد دعا سے بچو ‘‘اس بات کی طرف رہنمائی فرمائی کہ یہ ظلم ہے ،غور طلب بات یہ ہے کہ جب اموال ِزکٰوۃ میں سے عمدہ ترین مال لینا ظلم ہے تو زیادہ لینا ظلم کیوں نہ ٹھرا؟اس طرح بغیر کسی شرعی عذر کے لوگوں کا سارا مال ہی چھین لینا ظلم کیوں نہ ہوگا؟مگر اہل اشتراکیت اسے ظلم نہیں سمجھتے کیونکہ ان کے خیال میں تو لوگوں کے مابین معاشی کمی بیشی ظلم ہے ( والعیاذ باللہ ) جو کہ اللہ رب العالمین کے ارادہ شرعیہ اور احکام تقدیر پر مبنی ہے ۔ (6) نظام اشتراکیت میں انسان کا اللہ تعالی پہ توکل کمزور بلکہ معدوم ہو جاتا ہے کیونکہ جب تنگدست آدمی ایسے معاشرہ میں زندگی بسر کرے گا جہاں نظام اشتراکیت نہیں ہوگا تو ہمیشہ اللہ تعالی پہ توکل کرتے ہوئے اس سے رزق مانگے گا اور اس کی امیدوں کا محور و مرکز رب کریم کی ذات ہوگی اور جو ایسے معاشرہ میں زندگی بسر کرتا ہو گا جو نظام اشتراکیت میں آلودہ ہوگا ،اس کی امیدوں کا محور و مرکز لوگ ہوں گے وہ لوگوں پہ بھروسہ کرتے ہوئے انہی سے مانگے گا ،اور یہی اصحاب اشتراکیت چاہتے ہیں وہ تو
[1] یہ ایک اصول فقہ کا قاعدہ ہے جس سے مراد ’’ بوقت ضرورت شرعی حکم کو مؤخر کرنا جائز نہیں ہوتا ‘‘ [2] جامع ترمذی: کتاب الزکوٰۃ، باب ما جاء في كراهية أخذ خيار المال في الصدقة، یہ حدیث حسن صحیح ہے۔(امام ترمذی)