کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 401
لہٰذا اس بنا پر صحیح طریقہ یہ ہے کہ دینے والا سامان کی قیمت اور اس کے نفع کی مقدار معلوم ومعیّن کرکے بیان کرے اور پھر لینے والے کو کہے ’’میں نے تجھے ایک سال تک اتنے میں دیا ‘‘۔ (2) ادھار لینے والا اسے اپنے قبضہ میں کرنے اور اپنے پاس لے جانے سے پہلے اس چیز کو فروخت نہ کرے کیونکہ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاجروں کو سامان اپنی دوکانوں اور اپنی جگہوں پر لے جانے سے قبل فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے‘‘۔[1] جب یہ چاروں شرائط پوری ہوجائیں تو پھر مسئلہ تورق کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے ،تاکہ لوگوں کو تنگی نہ ہو۔لیکن یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ادھار لینے والے اور ادھار دینے والے کو یہ سامان اور چیز فروخت کرنے والے کو کسی بھی حالت میں خریدی ہوئی قیمت سے کم میں فروخت نہ کرے کیونکہ یہی ’’العینہ‘‘(سود کی ایک قسم ) ہے‘‘۔[2]انتھی و اللّٰه اعلم  دو خریدوفروخت کرنے والوں کاتیسرےشخص کو واسطہ بنانا: اس کی صورت یہ ہے کے دو آدمی کسی سودی معاملہ پر اتفاق کرلیں اور دوکان کے مالک کہ پاس آئیں اور اس سے کسی قیمت پر کوئی سامان کا مطالبہ کریں اور وہ سامان ان میں سے ایک آدمی خرید لے پھر دوسرے کے ہاتھ خریدی ہوئی قیمت سے زیادہ قیمت پر ادھارپراپنے ساتھی کو بیچ دے ، اور جب اس کا ساتھی خرید چکے تو پھر دوکان کے مالک کو اس سے کم قیمت پر واپس کر دے اس طرح دوکان کے مالک نے دونوں کے درمیان واسطہ بن کر منافع کمایا اس صورت کو علماء نے ’’حیلہ ثلاثیہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے کیونکہ اس میں تین لوگ شریک ہوتے ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں’’ بلاشبہ یہ صورت سود میں سے ہے‘‘۔[3] اس صورت میں ایک اور قباحت یہ بھی ہے کہ پہلے آدمی نے سامان اپنے قبضے میں لئے بغیر ہی بیچ ڈالا جوکہ ناجائزہے جیسا کہ حدیث میں ذکر ہوا۔
[1] سنن أبي داؤد:كتاب الإجارۃ، باب في الطعام قبل أن يستوفي. [2] رسالة المداينة للشيخ العثيمين رحمه الله [3] المجموع:29/441