کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 400
اس کے جواز میں علماء کرام کا اختلاف ہے ،بعض تو اسے جائز قرار دیتے ہیں ، کیونکہ آدمی کوئی چیز خریدتا ہے توا س کا مقصد یا تو بعینہ وہ چیز اور سامان ہوتا ہے ،یا پھر اس کا کوئی عوض ،اور یہ دونوں مقصد صحیح ہیں۔
اور بعض علماء کرام کہتے ہیں کہ یہ جائز نہیں ، کیونکہ اس کا مقصد پیسےحاصل کرنا ہے ،اور یہ سامان توا ن کے مابین بطور حیلہ داخل ہوتا ہے اور ان وسائل کا استعمال کرناجس سے نقصان اور خرابی کا ازالہ نہیں ہوتا اس کی بنیاد پرکسی حرام چیز کو حلال کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ، اور ہر شخص کے لئے وہی ہے جو اس نے نیت کی ‘‘۔[1]مسئلہ تورق کو حرام قرار دینے کا قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے،اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت ہے۔ بلکہ امام احمد رحمہ اللہ نے تو ابو داؤد کی روایت میں اسے العینہ یعنی سود میں شامل کیا ہے ،جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے تہذیب السنن میں نقل کیا ہے۔[2]
لیکن آج کے دور میں لوگوں کی ضرورت اور قرض دینے والوں کی کمی کے پیش نظر کچھ شرائط کے ساتھ اسے جائز کہنا ضروری ہے :
(1)تورق کا معاملہ کرنے والا شخص ضرورت مند ہو ،اور اگر وہ رقم کا محتاج نہیں تو پھر جائز نہیں ہوگا،مثلا کوئی شخص کسی دوسرے کو قرض دینے کے لئے یہ طریقہ اختیار کرے تو ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا۔
(2) کسی اور مباح ذریعے سے اس کے لئے مال حاصل کرناممکن نہ ہو مثلاً قرض کے ذریعے ،اور اگرکسی اور طریقہ سے اس کے لئے مال حاصل کرنا ممکن ہو تو اس کے لئے یہ طریقہ (تورق ) اختیار کرنا جائز نہیں ہوگا کیونکہ اسے اس کی ضرورت نہیں۔
(3) معاہدہ کسی ایسی چیز پر مشتمل نہ ہو جو سود کے مشابہ ہو ،مثلا وہ یہ کہے :میں نے تجھے یہ دس درہم، گیارہ درہم میں فروخت کئے ، یا اس طرح کی بات کہے اگر وہ اس پر مشتمل ہو یا تو یہ مکروہ ہوگا یا پھر حرام۔ امام احمد سے منقول ہے کہ انہوں نے اس طرح کے مسئلہ میں فرمایا:گویا کہ یہ دراھم کے بدلے دراھم ہیں، یہ صحیح نہیں ہے۔
[1] صحيح البخاري:باب بدء الوحي
[2] تهذيب السنن لإبن القيم 80\5