کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 399
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ یہ حدیث معاملات کے باب میں ایک اصول ہے اور سودی حیلوں کی حرمت پر واضح دلالت کرتی ہے ‘‘۔[1]
مسئلہ تورق[2]: اس کی صورت یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے شخص سے کوئی سامان خریدتا ہے تاکہ اسے بیچے اور اس کی قیمت لے ،اس کا مقصد نہ اس سامان سے فائدہ اٹھانا ہے اور نہ تجارت کرنا بلکہ اس کا مقصد صرف ایک سے لینا اور دوسرے کو دینا ہوتا ہے۔اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کا حصول ہے۔اس طرح کی خرید و فروخت کو تورق کہتے ہیں۔
التورق :’’وَرِق‘‘ یعنی چاندی سے ماخوذ ہے ، کیونکہ جس نے سامان خریدا ہے وہ صرف پیسے اور رقم بنانے کےلئے سامان خرید رہا ہے علماء کرام اسے مباح قرار دیتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا عمومی فرمان ہے :
{وَأَحَلَّ اللّٰه الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا }[البقرة: 275] ’’اور اللہ تعالی نے خرید و فروخت کو حلال کیا ہےاور سود کو حرام ‘‘
اور اس لئے بھی کہ اس میں سود کی صورت اور مقصد ظاہر نہیں ہوتا۔اور اس لئے بھی کہ خریدار سامان اس لئے خرید رہا ہے تاکہ اس سے فائدہ حاصل کرے۔ یا تو وہ بعینہ اس چیز سے فائدہ حاصل کریگا ،یا پھر اس کی قیمت سے، سعودی عرب کی مستقل فتوی کمیٹی کے علماء کرام اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے یہی رائے اختیار کی ہے۔[3]
مگر شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اس میں توسط اختیار کرتے ہوئے کچھ معیّن شرائط کے ساتھ اس معاملے کو جائز قرار دیا ہے۔شیخ رحمہ اللہ اپنے ایک کتابچہ ’’رسالة المداينة‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’پانچویں قسم (یعنی قرض کی اقسام میں سے ) کہ اسے رقم اور مبلغ کی ضرورت ہے اور اسے قرض دینے والا کوئی شخص نہیں تو وہ کوئی چیز ادھار خرید کر پھر اسے کسی اور شخص کو فروخت کردے جس سے خریدا ہے اسے فروخت نہ کرے ، یہ مسئلہ تورق کہلاتا ہے۔
[1] تهذيب السنن المطبوع مع عون المعبود 9/402
[2] اس مسئلہ کے آخر میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے کچھ شروط منقول ہیں۔اگر ان اکا خیال نہ رکھا جائے تو یہ ربا کےحیلوں میں سے ہوجاتا ہے۔
[3] فتاوی اللجنةالدائمة للبحوث العلميةوالإفتاء 13/141 مجموع فتاوی ابن باز 19/225