کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 398
عنہما کے پاس آیا اور کہنے لگا : ’’میں نے ایک مچھلی فروش کو بیس درھم قرض دئےتو اس نے مجھے ایک مچھلی ہدیہ دی ، میں نے اس مچھلی کی قیمت لگوائی تو وہ تیرہ درھم تھی ، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمانے لگے :’’ اس سے سات درہم لے لو‘‘[1] شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اگر کوئی کہنے والا کہے کہ جب یہ مسئلہ ہے ہی حرام تو اسے اصل پر کیوں نہیں لوٹایا جاتا ( یعنی اسے بالکل منع ہی کیوں نہیں کردیا جاتا )؟ تو ہم کہیں گے :اس لئے کہ ہوسکتا ہے اسے حیاء اور شرم روک دے اور ہدیہ رد کرنے سے ہدیہ دینے والے کا دل ٹوٹ جائے تو ہم کہتے ہیں : اس سے لے لو اور اسے اتنا یا اس سے بھی زیادہ بدلہ دینے کی نیت کرلو ، یا اس کی قیمت قرض میں شامل کرلو تو اس میں کوئی حرج نہیں کچھ کمی و بیشی کے ساتھ ‘‘۔[2] اسی ضمن میں ایک اور ممنوعہ صورت کا ذکر کرتے چلیں کہ ایک شخص اگر کسی کو 10 ہزار روپے ادھار دے پھر ساتھ میں اپنا کوئی سامان جس کی قیمت 4 ہزار روپے ہو وہ 5 ہزار میں بیچ دے یہ بھی ناجائز ہے۔کیونکہ یہ 1 ہزار روپے کا منافع صرف اور صرف اس کے قرض دینے کی وجہ سے لیا جارہا ہے۔ اور قرض دار قرض کی مجبوری کی وجہ سے اس کا سامان خریدنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے چنانچہ یہ بھی ایسا قرض ہے جو منافع لاتا ہے لہٰذا شرعی اصول کی بنا پر یہ ناجائز ٹھہرا۔اور اس کی حرمت پر سلف کا اجماع ہے۔ [3] اس صورت میں ایک اور قباحت یہ ہے کہ اس میں ادھار اور خرید ایک ساتھ جمع ہورہی ہیں جو کہ شرعا ًممنوع ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :’’قرض کی شرط پر بیع حلال نہیں ،اور نہ ہی ایک بیع میں دو شرطیں ،اور نہ ہی اس میں منافع ہے جو مضمون نہ ہو اور جو تیرے پاس نہیں اس کی بیع نہیں‘‘۔[4]
[1] مجموع الفتاوی الکبری لإبن تيمية 6/159 [2] شرح الممتع 9/61 [3] المغني لابن قدامة 4/211 [4] جامع الترمذي:كتاب البيوع،باب ما جاء في كراهية بيع ما ليس عندك، امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے. سنن أبي داؤد كتاب الإجارة ،باب في الرجل يبيع ما ليس عنده