کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 397
یہ یقین ہوا کہ یہ قرض کی بنا پر نہیں تو انہوں نے ہدیہ قبول کرلیا ، اور مقروض شخص کا ہدیہ قبول کرنے سے باب میں یہ روایت فیصل ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ ’’نيل الاوطار ‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’ماحصل یہ کہ اگر تو ہدیہ یا عاریہ قرض میں اور مہلت لینے اور وقت زیادہ کرنے کے لئے ہو ،یا قرض خواہ کے لئے بطور رشوت ہو ، یا قرض خواہ کو قرض کے بدلے نفع دینے کے لئے ہو تو یہ حرام ہے ، کیونکہ یہ سود اور رشوت کی ایک قسم میں سے ہے۔ اور اگر مقروض اور قرض خواہ کی عادت میں سے ہو کہ وہ اس قرض سے قبل بھی ایک دوسرے کو ہدیہ دیتے ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ، اور اگر یہ اصلا ً اس غرض سے نہیں تو ظاہر یہی ہے کہ اسے قبول نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ اس کی ممانعت مطلقاً ہے ‘‘[1] اگر آپ یہ کہیں کہ : کیا ہدیہ رد کرنے کے علاوہ اور بھی کوئی حل ہے ،اور سود میں واقع ہونے کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے : جی ہاں ،اگر آپ اسے رد کرنے سے انکار کریں ،اور ضرور قبول کرنا چاہیں تو پھر آپ کے سامنے دو راستے ہیں ان میں سے جو چاہیں اختیار کریں: یا تو اسے اسی طرح کا ہدیہ دیں جو اس سے بھی بہتر اور اچھا ہو ، یا پھر اسے قرض میں شامل کریں اور اس کی قیمت قرض میں سے کم کرکے ہدیہ کے مالک سے اتنا قرض کم واپس لیں۔ سعید بن منصور رحمہ اللہ اپنی سنن میں بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا : ’’ میں نے بغیر کسی تعارف کے ایک شخص کو قرض دیا ،تواس نے مجھے کچھ ہدیہ دیا ، ابن عمر رضی اللہ عنہما کہنے لگے :اسے اس کا ہدیہ واپس کردو یا اسے قرض میں سےشامل کرلو‘‘ اور سعید بن منصور ہی بیان کرتے ہیں کہ سالم بن ابی جعد نے بیان کیا :’’ایک شخص ابن عباس رضی اللہ
[1] نيل الأوطار :6/257