کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 389
2ـ اس طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم جب اپنی رقم کسی کو دیتے ہیں تو اپنی ضرورت کو روک کر دوسرے کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں اور اس میں رقم کے ڈوبنے کا خطرہ بھی ہوتا ہے اس لئے اس پر سود لینا جائز ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ اگر مال دار آدمی کو رقم ڈوبنے کا اندیشہ ہو تو وہ ایسا کام ہی نہ کرے اور بے خطر ہوجائے یا پھر وہ مدیون سے کوئی چیز بطور ضمانت لے کر رکھ لے۔
3ـ نیز بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں دوسرے کو اپنے مال سے فائدہ اٹھانے کا موقعہ دیتا ہوں ،لہذا اس میں سے مجھے بھی حصہ ملنا چاہئے۔یہ بات اگرچہ درست ہے مگر اسے ایسی صورت میں مشارکت کا معاملہ کرنا چاہئے کہ اگر رقم لینے والے کو کاروبار میں نفع ہوا تو یہ نفع میں شریک ہو اور اگر اسے خسارہ آئے تو یہ خسارہ میں بھی حصہ دار بنے۔یہ کہاں کا انصاف ہے کہ وہ منافع میں تو حصہ دار بننے پر تیار ہے مگر خسارہ کی صورت میں بالکل الگ تھلگ ہوجائے؟
ہماری اب تک کی گزارشات سے یہ واضح ہوچکا ہے سود شرعی طور پر قطعا ناجائز اور حرام ہونے کے ساتھ ساتھ انسانوں پر ظلم ہے نیز اس کے روحانی اور اخلاقی نقصانات بھی زیادہ ہیں۔
اصلاح احوال
ایک سوال: ہماری اس قسم کی گفتگو سن کر بعض مغرب زدہ دانشور کہہ دیا کرتے ہیں کہ چونکہ اب تک غیر سودی نظام مالیات مدون نہیں ہوا۔لہٰذا عارضی طور پر سودی نظام جاری رہنا چاہیے۔جب غیر سودی نظام سامنے آجائے گا تو اسے ختم کردیں گے۔یہ محض خام خیالی ہے سود چونکہ شرعا ًحرام ہےاسے دستوری طور پر بھی ممنوع قرار دینا چاہیے ۔ اس کے نتیجے میں خود بخود غیر سودی نظام سامنے آجائے گا اگر سودی نظام اسی طرح چلتا رہے تو قیامت تک اس سے جان نہیں چھوٹ سکتی۔اور بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ سود کے بغیر ہمارا ملک چل ہی نہیں سکتا۔یہ محض شیطانی وسوسہ ہےہم سود جیسی نحوست کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔اللہ تعالی کا کوئی بندہ جرأت کرکے سود کو مکمل طور پر ممنوع قرار دے پھر دیکھیں کہ کیوں کر اللہ تعالی کی رحمت اور اس کا فضل ہمارے شامل حال ہوتا ہے۔إن شاءاللہ۔
یہ تو ہیں سود کے متعلق اسلامی احکامات۔ ان کے علاوہ کوئی بھی سنجیدہ،غیر متعصب اور انسانیت کا خیر خواہ آدمی سود کو قبول کرتا ہے نہ پسند۔اگر ہم مغربی ماہرین معاشیات کی کتابوں کا وسیع مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ بھی سود کو انسانیت کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ سمجھتے ہیں۔معروف مغربی ماہر اقتصادیات