کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 376
کہا جاتا کہ خیبر کی زمین خراجی تھی۔ یہ اعتراض درست نہیں کیونکہ خیبر کا کچھ حصہ تو بزورِ شمشیر فتح ہواتھا اور کچھ حصہ بغیر جنگ کے ہی فتح ہوگیا تھااور مسلمانوں اور یہود کے مابین مصالحت اس بات پر ہوئی تھی کہ تمام زمینیں مسلمانوں کی ملکیت ہوں گی اسی لئےعہد فاروقی میں جب انہیں نکالا گیا توخیبر کی آدھی زمین تو بطور مالِ فیٔ اسلامی مملکت کی تحویل میں آگئی اور باقی مجاہدین اور امہات المومنین وغیرہ میں تقسیم کر دیا گیا اسے کسی طور پربھی خراجی زمین قرار نہیں دیا جاسکتا۔ باقی رہا مزا رعت کا معاملہ تو وہ زمین خراجی تھی یاغیر خراجی سب کا معاملہ مزارعت پر ہی ہوا تھا۔ امہات المومنین رضوان اللہ علیہن اجمعین نے بھی اپنی زمینیں مزارعت پر ہی دیں۔ مانعین مزارعت کی طرف سے کچھ اور بھی اعتراض کر کے اسے مزارعت سے نکالنے کی کوشش کی گئیں ہیں مگر ایسے اعتراض محض برائے اعتراض کئے جا تے ہیں لہٰذاان کا جواب ضروری نہیں۔ (2)امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد زُفر نے مزارعت مساقاۃ ( آبپاشی کیلئے )اور کراء الارض (ٹھیکے پر دینا ) کو منع فرمایا ہے۔[1] ہدایہ میں امام صاحب کے اس قول کا استدلال کچھ اس طرح سے کیا گیا ہے کہ: اور انکی دلیل یہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخابرت سے منع فرمایا ہےجو مزارعت ہی ہے‘‘اور کیونکہ یہ ایسا کرایہ ہے جس میں اجیر کی اجرت اس کےعمل میں سے ادا کی جاتی ہےاس طرح یہ قفیز الطحان جیسا معاملہ ہو جائے گااور کیونکہ اس میں کرائے کی اجرت مجہول یعنی غیر مقدر ہوتی ہے تو یہ ہر طرح سے فاسد ہے،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ خیبر سے مزارعت کاجو معاملہ کیا تھاوہ بٹائی کے ذریعہ خراج وصول کرنا تھا اورمصالحت اوراحسان میں وہ جائزہے۔[2] اس استد لال کو ہم تین نکات میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔ 1 نہی پر وارد حدیث مبارکہ۔ 2 مزارعت کا اجرت پر قیاس ۔ 3 اراضی خیبر کو خراجی قراردینا۔
[1] نيل الأوطار:6/14 [2] الهدايۃ في شرح بدايۃ المبتدي :كتاب المزارعۃ 4/ 337 ، الأم :4/18