کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 364
للمرء الا ما طابت به نفس امامه‘‘{ }اس حدیث کی روایت منقطع ہے اور ایک راوی مکحول نےکسی مجہول راوی سے روایت کی ہے اس بناء پرروایت حجت کے لائق نہیں..[1]
لیکن دورِحاضرمیں حکومت تمام زمینوں کی مالک ہوتی ہے اس لئے حکومت سے اجازت لینا ہی قرین قیاس ہےاور حکومتوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ بھی مستحق لوگوں کیلئےبنجراراضی کی آبادکاری کی ایسی اسکیمیں متعارف کرائے جو وطنِ عزیز کےکروڑوں نادارلوگوں کے پیٹ بھرنے کا سبب بھی ہوں اور ملک کی لاکھوں ایکڑ اراضی کےقابل کاشت بنانے کاباعث بھی۔ مزید تفصیل آگے آئے گی۔ان شاءاللہ
(2) اراضی اقطاع
حکومتی اراضی سے کچھ حصہ[جاگیر،خواہ زمین ہو یا معدنیات]بعض مستحقین یا مخصوص افراد کوعطا کردیا جائے تو ایسی زمینوں کو اراضی اقطاع کہا جاتا ہے بشرطیکہ یہ اراضی پہلےسے کسی کی ملکیت میں نہ ہو۔
اقطاع ِاراضی کی عہدنبوی علیہ افضل الصلاۃوالسلام میں کئی مثالیں ملتی ہیں :
(1)انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےبحرین میں جاگیریں دینے کا ارادہ کیا تو انصار نے عرض کیا کہ[ہم لوگ نہ لیں گے]جب تک کہ ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی آپ اتنی ہی جاگیر عطا فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد دیکھو گے کہ لوگوں کو تم پر ترجیح دی جائے گی، تو اس وقت تم صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے ملو‘‘۔[2]
اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہےکہ نہ اراضی کادورافتادہ وبنجر[موات] ہونا ضروری ہےاور نہ ہی اس کا حاجت مند ہونا ضروری ہے جسےزمین دی جا رہی ہے۔جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک بنجر زمین کاقطعہ ہی کسی مستحق کو دیا جاسکتا ہےان کی دلیل ہے ۔’’إن اللّٰه لا يقدس أمة لا يؤخذ
[1] صبح النوری شرح مختصر القدوری2/383
[2] معرفۃ السنن والآثار :9/ 8 3صحيح بخاری ، باب القطائع :3/ 114