کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 359
سوم : اس صورت میں غرر(دھوکہ) واضح شکل میں موجود ہے ، خریدار کو یہ پتہ نہیں کہ معاہدہ کس پر مکمل ہوگا صرف سامان پر یا نقد ہدیہ پر ۔ ؟ اسی خدشے کے تحت بیع الحصاۃ [1]، بیع الملامسہ [2]اور بیع المنابذہ [3]سے احادیثِ صریحہ میں منع فرمایا گیا ہے ۔ مذکورہ بالا گفٹ کی صورت بھی ان صورتوں سے ملتی جلتی ہے ۔ چہارم : اس کے جائز قرار دینے سے لوگوں کو بہت سی ایسی چیزیں خریدنے پر ابھارا جا تا ہے جن کی انہیں ضرورت نہیں ہوتی ، ان کا مقصد محض اس سے تحفہ نکالنا ہوتا ہے اور بلا ضرورت چیزیں خریدنا اسراف اور فضول خرچی میں شمار ہوتا ہے جس سے شریعت نے منع فرمایا ہے ۔
[1] بیع حصاة کی صورت یہ ہے کہ خریدار دوکاندار سے کہے کہ جب میں تیری اس چیز یعنی مبیع پر کنکری مار دوں تو سمجھ لینا کہ بیع واجب ہوگئی یا دوکاندار خریدار سے کہے کہ میں نے اپنی چیزوں میں سے وہ چیز تمہیں بیچی جس پر تمہاری پھینکی ہوئی کنکری آ کر گرے یا میں نے یہ زمین وہاں تک تمہارے ہاتھ فروخت کی جہاں تک تمہاری پھینکی ہوئی کنکری جا کر گرے بیع کا یہ طریقہ ایام جاہلیت میں رائج تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ [2] ملامست کا طریقہ یہ تھا کہ ایک شخص کوئی چیز مثلا کپڑا خریدنے جاتا تو کپڑے کو ہاتھ لگا دیتا کپڑے کو ہاتھ لگاتے ہی بیع ہو جاتی تھی نہ تو آپس میں قولی ایجاب وقبول ہوتا تھا۔ [3] منابذت کی صورت یہ ہوتی تھی کہ دونوں صاحب معاملہ نے جہاں آپس میں ایک دوسرے کی طرف کپڑا ڈالا بس بیع ہو گئی مبیع کو دیکھنے بھالنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔ یہ بھی ایام جاہلیت میں رائج بیع کا ایک طریقہ تھا لہذا اس کی ممانعت بھی فرمائی گئی