کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 358
(جیت )ہے اور اگر نہ نکلا تو غارم (نقصان)ہوگا ۔ اس صورت میں بالعموم لوگوں کو یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ یہ جوا کیسے ہو سکتا ہے جس شخص نے چیز خریدی اگر اس کا انعام نہیں بھی نکلتا تو چیز تو وہ استعمال کرے گا ہی ! اس نے چیز کے پیسے دئے تھے جو اس نے استعمال کرلی ۔ لہٰذا اس نے جو قیمت دی ہے وہ چیز کی دی ہے نہ کہ انعام کی ۔ لہٰذا یہاں نفع ، نقصان کا اور جوے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے بلکہ اس معاملے میں بہت سے شرعی اعتراضات وارد ہوتے ہیں جس وجہ سے یہ معاملہ جائز نہیں رہتا ۔  اس طرح کی چیزیں خریدنے والوں کا بنیادی مقصد چیز خریدنا نہیں ہوتا بلکہ ان کا مقصد اس نقدی کا حصول ہے جو اس سامان میں رکھی گئی ہے ۔ لہٰذا اس سے لوگ بلا ضرورت چیز خریدیں گے ، اور اگر اس میں سے انعام نہ نکلا تو غارم(نقصان میں) ہوں گے ۔ اور اگر تمام جزئیات سے یہ جوا نہیں تو اس کے بہت سے پہلو ہیں جو اسے اس طرف لے جاتے ہیں ۔ اول : اس میں جوے کی مشابہت موجود ہے اگرچہ وہ جزوی ہی کیوں نہ ہو ۔ ان تحفوں کی جوے سے بہت گہری مشابہت ہے ۔ اس لئے امام احمد رحمہ اللہ سے بیع مرابحہ کے بارے میں منقول ہے فرماتے ہیں: ’’ اگر فروخت کنندہ یہ کہے کہ میرا سرمایہ اس میں سو روپے ہے میں تجھے اس طرح بیچوں گا کہ ہر دس پر ایک درہم منافع وصول کروں گا ، فرماتے ہیں یہ بیع صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ بیع ایسے ہی ہے جیسے کوئی دراہم کے بدلے دراہم فروخت کرے ‘‘۔[1] یہاں امام احمد رحمہ اللہ نے ایک روایت میں مرابحہ کی اس صورت کو اس لئے ناجائز قرار دیا کیونکہ اس میں سود سے مشابہت پائی جاتی ہے ۔ دوم : یہ صورت جوے میں ملوث ہونے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے ۔ لہٰذا اصولی قاعدہ ’’ سد الذرائع ‘‘ کے تحت اس صورت کو ناجائز قرار دیا جائے گا ۔
[1] الإنصاف : 4/ 438