کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 347
مسائل مذکورہ بالاکا شرعی نوعیت سے جائزہ اہل علم نےمقابلوں کو عمومی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ پہلی قسم : ایسے مقابلے جو معاوضہ( انعام ) کے ساتھ بھی جائز ہیں اور بغیر معاوضے کے بھی ۔ مقابلوں کے حوالے سے اسلام کا جو عمومی نقطہ نظر ہے یہ تین چیزوں اونٹوں کی دوڑ، تیر اندازی، گھڑ دوڑ میں مقابلوں کے اجراء کو فقہاء نے اجماعا جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ اس مقابلے کی انعامی رقم کسی تیسرے فریق کی طرف سے ہو نہ کہ مقابلے میں شریک فریقوں کی جانب سے ۔[1] نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے :" لا سبق الا في خف ، أو نصل ، أو حافر" ۔[2] ’’مسابقت کے ساتھ مال لینا حلال نہیں مگر اونٹ ، یا گھوڑے دوڑانے میں اور تیر اندازی میں ‘‘ ۔ اہل علم نے مذکورہ بالا حدیث سے استدلال کرتے ہوئے یہ مقرر کیا کہ حدیث میں مذکور تینوں چیزوں میں مقابلے منعقد کرانا جائز ہیں بلکہ مطلب شرعی ہیں ۔ دوسری قسم : ایسے انعامی مقابلے جو واجبات کی ادائیگی سے غافل کردیں ، یا ان میں حرام چیز کی آمیزش ہوجائے ایسے مقابلے بالکل ناجائز ہیں ۔ اہل علم کا اس امر پر بھی اتفاق ہے کہ ہر وہ چیز جو انسان کو واجب کی ادائیگی سے مشغول کردے ، غافل کردے ، یا کھیل تماشے اور غفلت میں ڈال دے یا ہر وہ چیز جس میں حرام کی آمیزش ہوجائے اس میں مقابلے کا انعقاد کرنا ناجائز ہے ۔[3] اس طرح کے مقابلے سورہ مائدہ میں فرمان باری تعالیٰ کی روشنی میں حرام وناجائز قرار پائیں گے ۔
[1] اس اجماع کیلئے ملاحظہ کیجئے: مختصر الطحاوي لمحمد بن حسن ص 304 ، مختصر إختلاف الفقهاء للجصاص ، 3/ 515التمهيد لابن عبد البر ، 14/ 88 ، مراتب الاجماع ، 183 ، شرح صحيح مسلم ، 13 /14 . [2] ابوداؤد : کتاب الجهاد ، باب في السبق ، الترمذي : کتاب الجهاد ، باب ماجاء في الرهان والسبق . النسائي : کتاب الخيل ، باب السبق . ابن ماجه: کتاب الجهاد ، باب السبق و الرهان . [3] دیکھئے : مجموع الفتاوی ، شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله ، ج32ص 250 اور کتاب الفروسية ، لابن القيم ص 178