کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 34
تھے‘‘۔ ’’فتهلککم کما أهلکتهم‘‘ ’’ اور یہ دنیا کی رغبت اور یہ حرص اور یہ لالچ تمہیں بھی بربادکردےگی جیسا کہ ان کو برباد کرچکی تھی جیسا کہ سابقہ لوگوں کو دنیا نے برباد کیا اس فراوانی اور مال کے حرص نے‘‘ ۔کہیں یہ تمہارے اندر یہ مرض پیدا نہ ہوجائے اشارہ امت محمدیہ کی طرف ہے ورنہ صحابہ کرام اس قسم کے حرص سے بالکل پاک تھے جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :’’میں کبھی یہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھا، کہ دنیا کی محبت بھی کوئی چیز ہے اصل محبت تو پروردگار کی اوردار آخرت کی ہے،دنیا کی محبت ،دنیا کے مال کی محبت میرا دل نہیں مانتا تھا مگر جب قرآن کی آیت اتری [منکم من یرید الدنیا... ] اس آیت کے نزول کے بعد مجھے یہ ماننا پڑا کہ دنیا کی محبت بھی کچھ دلوں میں ہوتی ہے۔[1]مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس چیز سے مبرا تھے ان کا تعلق صرف اپنے پروردگار کے ساتھ تھا ، محبت صرف اپنے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی اور وہ حصول آخرت کے لئے محنت کرتے تھے دنیا کی قطعا کوئی حرص نہ ہوتی تھی۔ ایک صحابی میدانِ جہاد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھےفتح ہوئی مال غنیمت حاصل ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کا حصہ دیا کہ تم یہ لے لو اس نے کہا : ’’ما اتبعتک لهذا و إنما اتبعتک لکي أُرمی هاهنا في سبيل اللّٰه و أشار إلی عنقه‘‘۔[2] ’’ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اس دنیا کے مال کی خاطر آپ کی اتباع نہیں کی میرا تو ایک ہی ہدف ہے کہ آپ کے ساتھ کسی جہاد میں یہاں تیر لگے اور شہید ہو جاؤں ،شہادت کا تمغہ اپنے سینے سے سجالوں۔‘‘ تو اللہ کے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے ایک معرکے میں یہ صحابی شریک تھا اور شہید ہو گیا اور واقعی دیکھا گیا کہ تیر وہیں پیوست تھا جہاں اس نے اشارہ کیا تھا ۔اب جو اس نے بات کہی تھی کہ میں دنیا کے مال کی خاطر آپ کی اتباع اختیار نہیں کئے ہوئے بلکہ میرا مقصد تو شہادت کی موت ہے ۔ تو اس کا مطلب یہ ہوسکتا تھا کہ شاید یہ گھر کا کھاتا پیتا ہو اسے مال کی حاجت ہی نہ ہولہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس
[1] تفسير طبرى:ص 8035-8038 [2] 1سنن النسائی: کتاب الجنائز، الصلاۃ علی الشھداء1953