کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 338
نقصانات اور منفی پہلو بھی سامنے آتے ہیں ۔جس سے خریدار کے جذبات مجروح ہوتے ہیں ، بد اعتمادی کا سلسلہ چل نکلتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بھروسے کی فضا ناپید ہوجاتی ہے ، جوکہ کاروبار کی ترقی ، برکت اور کامیابی کیلئے انتہائی ضروری ہے ۔ اکثر اوقات ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ایک شخص اپنی جمع پونجی لگا کر چیز خریدتا ہے لیکن پھر بھی وہ کوس ہی رہا ہوتا ہےکہ میرے ساتھ فراڈ ہوگیا ، میں لٹ گیا لیکن کیا کیا جائے یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ! ؎ شکوہ کریں تو کس سے شکایت کریں تو کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؎ حرفِ دروغ ،غالب شہر خدا ہوا شہروں میں ذکر حرفِ صداقت کریں تو کیا دوسرا ضابطہ : حرام کردہ چیزوں کی ایڈورٹائزنگ نہ کی جائے اس میں ایڈورٹائزنگ کمپنیاں اورمتعلقہ تمام ادارے اس کی پاسداری کریں حرام چیز کا نہ ایڈ تیار کیا جائے ، نہ اس کی تشہیر کے لئے جگہ دی جائے اور نہ ہی اسے نشر کیا جائے ، جس چیز کا استعمال گناہ ہے یقیناً اس کی ترغیب دینا بھی گناہ ہے اور اگر ایسا ہوا تو تمام لوگ جرم میں برابر کے شریک ہوں گے ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے : {وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللّٰه إِنَّ اللّٰه شَدِيْدُ الْعِقَابِ} [المائدة: 2] ’’ نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ ظلم زیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالٰی سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :’’ بیشک اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر کسی چیز کا کھانا حرام کر دیتے ہیں تو اس کی قیمت سے فائدہ اٹھانا بھی حرام فرما دیتے ہیں‘‘ ۔[1]
[1] سنن دارقطني : كتاب البيوع ، إن الله تعالى إذا حرم شيئا حرم ثمنه .