کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 337
اس اونٹنی کی ایڑی میں نقب ہے ، کہتے ہیں : یہ بات سن کر وہ فروخت کرنے والا کہنے لگا : اللہ تمہاری اصلاح کرے تم تو میرا سودا خراب کر رہے ہو ۔ اس پر واثلہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : "لا يحل لأحد يبيع شيئا إلا يبين ما فيه ولا يحل لمن يعلم ذلك إلا يبينه"[1] ’’ کسی کیلئے یہ حلال نہیں کہ جب وہ چیز بیچے، اس میں موجود عیب واضح طور پر بیان نہ کردے ، اور اس شخص کیلئے بھی جائز نہیں کہ جو اس عیب کو جانتا ہو وہ اسے بیان نہ کرے ‘‘ ۔ فقہاء نے بھی اس مسئلے پر تفصیلی بحث کی ہے کہ اگر کوئی بائع کسی شخص کو بغیر عیب کی نشاندہی کئے اپنی چیز فروخت کر دیتا ہے ، اور خریدار کواس عیب کا بعد میں علم ہوتا ہے تو یہ بیع تو صحیح ہوگی لیکن خریدار کو اختیار ہے وہ چاہے تو وہ چیز اس عیب کے ساتھ بخوشی قبول کرے یا پھر تاجر کو دوبارہ واپس لوٹا دے اور بیع فسخ کرکے اپنی قیمت واپس لے لے۔اس ضمن میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :’’ ایک شخص نے غلام خریدا اسے کام میں لگایا پھر اس میں عیب دیکھا تو واپس کر دیا ، اس پر فروخت کنندہ کہنے لگا کہ ’’ اس نے میرے غلام کو کام میں لگا کر فائدہ اٹھایا ہے اس کی اجرت ؟‘‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : " الغلة بالضمان " کہ نفع وفائدہ ضمانت کے ساتھ مربوط ہے ( جو ضامن کو ملے گا )۔[2] مندرجہ بالا دلائل سے نمایاں ہوا کہ ایڈورٹائزنگ کرنے والے کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ سچائی کا دامن نہ چھوڑے کہ کہیں ان معاملات میں نہ پڑ جائے جن سے شریعت اسلامیہ نے منع فرمایا ہے ، مگر المیہ یہ ہے کہ آج کے دور میں ایڈورٹائزنگ میں محض سچ کو چھپایا یا غلط بیانی سے کام نہیں لیا جاتا بلکہ اس سے بڑھ کر مبالغہ آرائی کی انتہا کردی جاتی ہے ۔ ایک شیمپو بیچنے والی کمپنی شیمپو کی اتنی توصیفات بیان کرتی ہے کہ جیسے اس میں ہر مرض کا علاج ہے لیکن استعمال کے بعد اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکلتے بلکہ الٹا
[1] مسند امام احمد : حديث واثلة بن الأسقع من الشاميين رضي الله عنه . امام حاکم فرماتے ہیں یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے ۔ [2] سنن ترمذی : كتاب البيوع ، باب في من اشترى عبدا فاستعمله ثم وجد به عيبا ، امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ امام البانی نے اس روایت کو حسن کہا ہے ۔