کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 33
یہاں یہ بحث نہیں ہے کہ یہ مالی حرص حلال کی بنیاد پر ہے یا حرام کی بنیاد پر ۔اگر حرام کی بنیاد پر ہے تو پھر یہ انسان انتہائی ترس کھائے جانے کے قابل ہے۔ خواہ وہ انڈسٹریوں اور بڑی بڑی کمپنیوں کا مالک ہو لیکن رحم کے قابل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :’’لن يدخل الجنة لحم نبت من حرام‘‘[1]’’جو انسان کا گوشت رزق حرام سے بنتا ہے وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا‘‘ ۔اور ایک حدیث میں فرمایا :’’اللحم الذی نبت من حرام فالنار أولی به‘‘۔ ’’ جو گوشت رزق حرام سے بنتا ہے اس کی حق دار جہنم کی آگ ہے‘‘ ۔ حرص اگر حرام کی اساس پر ہے تو یہ انسان کے لئے تباہ کن ہے ۔لیکن اگر حلال کی اساس پر ہے تو پھر بھی معیوب ہے۔ صحیح بخاری[2]میں حدیث ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین بطور قاصد بھیجا تا کہ وہ وہاں سےجزیہ کا مال وصول کرکے لائیں۔ ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ گئے اور مال لے کر آئے جس وقت مدینے میں پہنچے رات کا وقت تھا اور صحابہ کو ان کی آمد کی اطلاع ہو چکی تھی ، فجر میں لوگ دور دور سے نماز میں شریک ہوئے جب پیارے پیغمبرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور پیچھے دیکھا اور دیکھا کہ دور دور سے صحابہ آئے ہوئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’لعلکم سمعتم بقدوم أبي عبيدة‘‘۔ ’’شاید تم نے سن لیا ہے کہ ابو عبیدہ بحرین سے مال لے کر آگئے ہیں اور اس کی تقسیم ہو گی ‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ابشروا و املوا ما يسرکم‘‘۔ تم خوش ہو جاؤ اور وہ امید لیکر یہاں بیٹھو جو تمہیں خوش کر دے گی ،یہاں بخل نہیں ہے یہ مال تم میں تقسیم ہو گا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’واللّٰه ماالفقر أخشی عليکم ولکن أخشی عليکم الدنیا أن تبسط عليکم کما بسطت علی من قبلکم‘‘۔’’ مجھے تمہارے بارے میں اندیشہ فقر نہیں ہے کہ تم فقیر ہو جاؤ گے بلکہ مجھے تم پر اندیشہ یہ ہے کہ یہ دنیا تم پر کشادہ کردی جائے گی جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فراخ کردی گئی تھی‘‘ ’’فتنافسوها کما تنافسوها ‘‘۔’’اور تم بھی اس دنیا میں راغب ہو جاؤ گے جیسا کہ تم سے پہلے اس میں راغب ہوئے
[1] المعجم الكبير للطبرانى: حدیث نمبر 309 [2] صحيح البخاري :باب الجزية و الموادعةحدیث نمبر 3158