کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 316
ا ن علماء کے نزدیک تکافل یا اسلامی انشورنس کی بنیاد اس بات پر ہے کہ وہ تعاون پر مبنی ہے ، اس میں صارف سے کسی قسم کا عوض نہیں لیا جاتا ، چونکہ یہ معاملہ تعاون پر مبنی ہے لہذا اس میں اگر سود یا جوا کی شکل ہو بھی تو تکافل حرام نہیں ہے ، کیونکہ شریعت اسلامی کا یہ اصول ہے کہ تعاون میں وہ چیزیں بھی حلال ہوجاتی ہیں جو تجارت میں حرام تھیں ، مثال کے طور پر تجارت میں یہ صورت حرام ہے کہ ایک شخص ایک لاکھ روپے دے کر دو لاکھ وصول کرے ، یہ سود ہے ، لیکن تعاون میں جائز ہے جیسے کوئی شخص کسی سے دو لاکھ ادھار لے لے اور بعد میں کہے کہ میں مجبور ہوں میں ایک لاکھ روپے تک ہی دینے کی استطاعت رکھتا ہوں اور ادھار دینے والا اس سے ایک لاکھ روپیہ لے لے اور ایک لاکھ چھوڑ دے ، تو گویا مجبور شخص نے ایک لاکھ دے کر دو لاکھ وصول کیئے لیکن چونکہ یہ تعاون کی صورت تھی لہذا یہ جائز ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا تکافل یا اسلامی انشورنس واقعی تعاون پر مبنی ہیں یا نہیں؟۔کیونکہ تکافل میں واضح طور پر سود اور جوا کی وہ صورتیں جو عام انشورنس میں تھیں موجود ہیں۔اگر تکافل واقعی تعاون پر مبنی ہے تو اس میں موجود حرام معاملات کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے ورنہ تکافل میں اور کمرشل انشورنس میں کوئی فرق نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تکافل کےا س بنیادی تصور اور صورت کو جو تکافل کمپنیوں اور اسلامی انشورنس کرنے والے اداروں میں رائج ہے بغور دیکھا جائے تو واضح طور پر اس میں عوض و معاوضہ ، اور لین دین نظر آتا ہے جو تعاون کی روح کے منافی ہے اور تکافل کو تعاون کے پردہ سے نکال کر تجارتی معاہدے کی شکل دے دیتا ہے جسے زبردستی اسلامی لبادہ پہنا کر حلال کرلیا گیا ہے۔
تکافل کی تعریف
تکافل عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے ایک دوسرے کا خیال رکھنا ، ایک دوسرے کی کفالت کرنا۔
موجودہ تکافل کا بنیادی نظریہ کچھ اس طرح ہے کہ چند افراد مل کر رقم جمع کرتے ہیں جسے کسی کاروبار میں انویسٹ کیا جاتا ہے ، تمام افراد اس رقم میں شریک ہوتے ہیں اور شرکت کا تناسب جمع کرائی گئی رقم کو دیکھ کر طے کیا جاتا ہے ، یعنی اگر جمع کی گئی رقم ایک لاکھ ہے تو دس ہزار جمع کرا نے والا دس فیصد کا حصہ دار ہوگا، جمع کی گئی رقم ایک وقف کی شکل اختیار کرلیتی ہے ، اس میں جو منافع ہوتا ہے اس میں بھی سب شریک ہوتے